آجکل کیلی فورنیا امریکا کے میلوں تک پھیلے ساحل پر تا حدِ نگاہ آئل ٹینکرز تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے نظر آتے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کھلے سمندر میں آئل ٹینکرز کیوں کھڑے ہیں، کیا ان کو تیل اتارنے کے لیے برتھ نہیں مل رہی، نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان آئل ٹینکروں کی وقتی طور پر کوئی منزل نہیں ہے اور نہ ہی اُنہیں معلوم ہے کہ کتنے لمبے عرصے تک انھیں امریکا اور دوسرے تیل خریدنے والے ممالک کے سمندری پانیوں میں کھڑا رکھا جائے گا۔
امریکا اور دوسرے کئی تیل درآمد کرنے والے ممالک کے ساحلوں پر تیل سے لدے یہ آئل ٹینکرز تیل کے تیرتے اسٹور Floating storesہیں کیونکہ زمین پر تیل اسٹور کرنے کی تمام سہولتیں لبالب بھرچکی ہیں۔ چین اور دوسرے تیل درآمد کرنے والے ممالک نے سستے تیل کی بہت بڑی کھیپ حاصل کرکے بڑے پیمانے پر تیل ذخیرہ کر لیا ہے۔ عالمی منڈی میں بہت ہی سستا تیل موجود ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کیوں منفی میں چلی گئی آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کوروناوائرس کی وباء پھوٹ پڑنے سے پہلے روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر اختلاف عروج پر پہنچ چکا تھا۔ روس تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے لیکن وہ امریکا کی طرح اوپیک کا ممبر نہیں ہے۔ اوپیک میں سعودی عرب کے علاوہ الجزائر، انگولا، گنی، ایران، عراق، کویت، لیبیا، نائیجیریا، کانگو، وینزویلا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اس کا ہیڈ کوارٹر وی آنا آسٹریا میں واقع ہے۔ سعودی عرب کو اوپیک کی ڈی فیکٹو سربراہی حاصل ہے۔
سعودی عرب کو یہ لیڈر شپ کیوں حاصل ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب تیل کے سب سے بڑے ذخائر رکھتا ہے، تیل کی کُل عالمی پیداوار کا دس فیصد تیل یہ ملک پیدا کرتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد خلیجی عرب ممالک خاص کر سعودی عرب نے پہلے تیل کی ڈیلیوری روک لی اور پھر تیل کی قیمت کو تین گنا بڑھا دیا۔ اس نازک صورتحال کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور تیل سپلائی یقینی بنانے کے لیے امریکا کے صدر نے وزیرِ خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کیسنجر کو سعودی عرب روانہ کیا۔
مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ روبہ عمل ہوا جس کے تحت سعودی عرب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنا تیل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکی ڈالر کے بدلے بیچے گا۔ اس سے پیٹرو ڈالر کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اب یہ پیٹرو ڈالر ہی ہے جس کی وجہ سے امریکا دنیا کا نمبر 1ملک ہے۔ جس دن پیٹرو ڈالر نہیں یعنی پٹرول ڈالر میں نہیں بلکہ کسی اور کرنسی میں بکے گا امریکی نمبر 1پوزیشن خطرے میں پڑ جائے گی۔ سعودی عرب، امریکا پیٹرو ڈالر معاہدے میں امریکا نے یہ ذمے واری لی کہ وہ سعودی عرب اور آلِ سعود کی حکومت کے دفاع کی ذمہ واری لیتا ہے۔ سعودی عرب کو دیکھتے ہوئے تیل پیدا کرنے والے دوسرے ممالک نے بھی امریکی ڈالر کو اپنالیا یوں اس وقت سے تیل کی قیمت اور ادائیگیاں امریکی ڈالر میں ہوتی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب نہیں ہو گا کہ امریکا میں چھپنے والے ڈالر نوٹ کی امریکا کے اندر کم اور باہر زیادہ ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ امریکا سعودی عرب پیٹرو ڈالر معاہدہ ہی کی وجہ سے اوپیک کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے لیکن اب روس کے صدر ولادی میرپوٹن اس ساری صورتحال کو چیلنج کرنے پر تُل گئے ہیں۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے کون سا ملک کتنی پیداوار کرے گا۔ کل عالمی پیداوار کتنی ہو گی اور تیل کی قیمت کیا ہو گی یہ سب کچھ بہت حد تک امریکا اور سعودی عرب کی مرضی سے طے ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے سعودی عرب کی مرضی نہیں چل پا رہی، تیل کی عالمی پیداوار پر روس، سعودی عرب تنازعہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑی۔ شہروں کے درمیان ٹریفک بند ہو گئی۔ تمام ممالک نے اپنی اپنی سرحدیں بند کر لیں۔ فضائی کمپنیوں نے مسافر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہوائی جہاز، ہوائی اڈوں پر پارک کر دئے، فیکٹریاں لاک ڈاؤن کا شکار ہو گئیں۔ بری، بحری اور فضائی ٹریفک کا مکمل انحصار پٹرول کی فراہمی پر تھا جب ہر طرح کی ٹریفک بند ہو گئی تو تیل جو کہ موجود ہے اور نکالا جا رہا ہے اس کا کیا کِیا جائے۔ عالمی منڈی میں فالتو تیل کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ طلب نہ ہونے اور انڈر کٹ آفرزکی وجہ سے تیل کی قیمتیں نیچے جاتے جاتے منفی میں چلی گئیں۔
روس اور سعودی عرب دونوں کی معیشت کا بڑا انحصار تیل کی برآمد اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن پرہے۔ سعودی معیشت بہت کم ڈائی ورسیفائیڈ Diversifiedہے جب کہ روس کی معیشت قدرے زیادہ ڈائی ورسیفائیڈ ہے۔ سعودی عرب کی جی ڈی پی کا 50فیصد تیل سے آتا ہے جب کہ روس کی جی ڈی پی کا 38فیصد انحصار تیل پر ہے۔ سعودی عرب سے نکلنے والے تیل کا نوے فیصد برآمد ہو جاتا ہے اس کے مقابلے میں روس کے تیل کا 59فیصد بر آمد ہوتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی ملک لمبے عرصے تک کم ترین قیمتوں کے ساتھ گزارہ کر سکے۔ سعودی عرب کو اپنے تیل کی پیداواری لاگت میں بہت Advantageحاصل ہے کیونکہ اسے تیل نکالنے پربہت کم لگانا ہوتاہے۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک اس صورتحال سے نکلنے کے لیے جلد یا بدیر تیل کے کنویں بند کر کے پیداوار کم کریں گے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایک مشکل یہ درپیش ہے کہ اگر تیل کے کنویں بند کر دئے جائیں تو اُن کو دوبارہ جاری کرنے پر زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے اور وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ دوسرا بند کرنے سے کئی کنویں بالکل ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ان کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ممکن نہیں رہتا۔ لیکن وہ مجبوراً سپلائی اور ڈیمانڈ میں ایسا بیلنس لانے کی سر توڑ کوشش کریں گے جس سے ان کو تیل کی overall مجموعی لاگت سے اوپر قیمت مل سکے۔ سعودی عرب کو اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے اور ڈائی ورسیفائی کرنے کے لیے کم از کم 60ڈالر فی بیرل کی قیمت درکار ہے۔ چونکہ اس نے اپنی معیشت کو کافی سبسڈی دے رکھی ہے۔ اگر یہ سبسڈی ہٹا لی جائے تو مہنگائی کا طوفان آئے گا جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہو گی۔ عوام کے اندر بے چینی حکومت کے لیے مشکلات لاتی ہے۔
منفی تیل قیمتوں کا پاکستان جیسے ملکوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ ہمارے بجٹ کا ایک زرِ کثیر تیل کے امپورٹ بل کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اب جب کہ تیل کوڑیوں کے بھاؤ دستیاب ہے تو پاکستان کو اس مد میں بہت کم ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔ اس سے ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں براہِ راست مدد مل رہی ہے۔ تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آنے سے فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔ پٹرول سستا ہونے سے ٹریکٹر، تھریشر اور دوسری زرعی مشینری چلانے میں کم لاگت آ رہی ہے۔ خوش قسمتی سے ایل این جی کی قیمتیں بھی بہت نیچے آ گئی ہیں۔
اس مرحلے پر بہتر حکومتی منصوبہ بندی سے عوام کو بہت سستا تیل اورڈیزل مہیا کیا جا سکتاہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت کم ہونے سے عوام کو سستی بجلی دی جا سکتی ہے۔ زرعی پیداوار، پھل اور سبزیوں کی پیداواری لاگت بھی کم آ رہی ہے اور سستے پٹرول کی وجہ سے اس کو منڈیوں تک سستا پہنچایا جا رہا ہے جوبہت خوش آئند ہے یوں مہنگائی کو لگام ڈال کر عوام کو ریلیف مہیا کیا جا سکتا ہے۔
یہ وباء جتنا لمبا عرصہ چلے گی تیل پیدا کرنے والے ممالک اتنا زیادہ متاثر ہوں گے لیکن اس وقت یہ قیاس کرنا کہ وباء کے بعد تیل کی قیمتیں کتنا اوپر جائیں گی مشکل ہے۔ روس کا رویہ فیصلہ کن فیکٹر بنے گا۔