Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Americi Jamhuriat Ke Liye Bara Challenge

Americi Jamhuriat Ke Liye Bara Challenge

تاریخ کا ایک انتہائی اہم سبق ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے جب خیرکی قوتیں شر کو مٹا دیتی ہیں۔ شراپنے اندر اپنے آپ کو تباہ کرنے کا رجحان لیے ہوتا ہے یعنی Evil self consumingہوتا ہے۔ استبدادی قوت بھی ایک ایسے ہی شر کی مانند ہوتی ہے جو آخر کار اپنے آپ کو کھا جاتی ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا پچھلی سات آٹھ دہائیوں سے ایک بڑی استبدادی قوت کا حامل ملک ہے۔ آئے روز امریکا کسی نہ کسی ملک پر دھاوا بول رہا ہوتا ہے لیکن لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں کہ خود امریکی اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر خود امریکی صدر کے اکسانے پر دھاوا بول رہے ہیں۔

3نومبر 2020 کو ہونے والے انتخابات امریکی جمہوریت کے لیے کوئی اچھی نوید لے کر نہیں آئے۔ انتخابات میں دونوں ہی امیدوارسفید فام تھے اور اس حوالے سے کوئی تفریق نہیں تھی لیکن پھر بھی ری پبلکن امیدوار امریکی صدر ٹرمپ کو سفید فام عوام خاص کر سفید فام مردوں کی بڑی حمایت حاصل تھی۔

انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن الیکٹورل ووٹوں کی اکثریت سے منتخب قرار پائے اور جن جن ریاستوں میں انھیں کامیابی ملی ان تمام ریاستوں نے ان کی کامیابی کی تصدیق بھی کر دی۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے جوبائیڈن کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا اورکئی ریاستوں کی عدالتوں میں ان نتائج کو چیلنج کر دیا۔

یہ تمام مقدمے خارج ہو گئے لیکن ٹرمپ ہار ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔ وہ اپنے بیانات اور سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے اپنے حامیوں کو ٹکرا جانے کا مشورہ دیتے رہے۔ 6جنوری کو امریکی کانگریس نے الیکٹورل ووٹوں کی تصدیق کرنی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن پہنچ کر پارلیمنٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑنے پر اکسایا تاکہ امریکی کانگریس تصدیق کا عمل مکمل نہ کر سکے۔

ٹرمپ کی دعوت پر اس کے ہزاروں حامی انتخابی نتائج کو منسوخ کروانے کے لیے امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے حامیوں کی ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو اپنے آپ کو لڑنے کے لیے تیار کرنا ہے۔

بعض علاقوں میں صدر کے حامیوں نے سڑکوں پر مسلح گشت بھی کی۔ صدر ٹرمپ نے نائب صدر مائیک پنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُسے یہ کرنا ہے کہ جو بائیڈن کی حامی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کو ان ریاستوں کو واپس بھیجوا دے، اس طرح ہم جیت جائیں گے۔ نائب صدر نے البتہ صدر ٹرمپ کی اس خواہش کو ٹھکرا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی آئین انھیں اس بات کا اختیار تفویض نہیں کرتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے حلف کے مطابق امریکی آئین کی پاسداری کے پابند ہیں۔

6جنوری2021کو امریکی کانگریس کا مشترکہ اجلاس نائب صدر مائیک پنس کی صدارت میں جاری تھا کہ صدر ٹرمپ کے حامی جن میں کچھ آتشیں اسلحے سے لیس تھے اور جو پہلے ہی واشنگٹن میں جمع ہو چکے تھے، انھوں نے امریکی پارلیمنٹ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ پہلے انھوں نے کیپیٹل ہل پر خوب نعرے بازی کی اور پھر سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھانے لگے۔ کانگریس کی سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ مظاہرین جب کھڑکیاں، دروازے اور شیشے توڑ کر اندر داخل ہو گئے تو کانگریس کا مشترکہ اجلاس وقتی طور پر روک دیا گیا۔ ارکانِ کانگریس ہال سے نکل کر مختلف جگہوں پر چھپ گئے۔

امریکی نائب صدر اور ایوانِ نمایندگان کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی کو ریسکیو کر کے محفوظ جگہ پہنچا دیا گیا۔ کیپیٹل ہل کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ کانگریس کی عمارت پر دھاوے اور پولیس کے ساتھ تصادم کے بعد دارالحکومت واشنگٹن میں رات بھر کے لیے کرفیو لگا دیا گیا۔ دھاوا بولنے والوں نے عمارت کے اندر خوب توڑ پھوڑ کی۔ تصادم کے نتیجے میں ایک خاتون اور تین مرد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ کی نیند سو گئے۔ بعد میں ایک پولیس والا بھی جان ہار گیا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے پلوسی کے دفتر کو خاص طور پر نشانہ بنایا جہاں انھوں نے کوئی چیز سلامت نہیں رہنے دی۔

ایک سفید فام تو نینسی پلوسی کے دفتر میں داخل ہو کر اس کی کرسی پر دراز ہو گیا اور کہا کہ یہ میری کرسی ہے۔ کانگریس کے دو ارکان جن میں ایک خاتون اور ایک مرد تھے وہ ایک بغلی کمرے کی کرسیوں کے نیچے چھپے پائے گئے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک باوردی اہلکار دھاوا بولنے والوں کو سیڑھیوں پر روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس کا پیچھا کرتے ہیں اور کانگریس کے چیمبر میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں کچھ لمحے پہلے اجلاس جاری تھا۔

دنیا بھر کی پارلیمان کا مرکزی چیمبر انتہائی مقدس گردانا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان اور چند مخصوص اہلکاروں کے علاوہ کوئی فلور آف دی ہاؤس پر قدم نہیں رکھ سکتا لیکن یہ کیا، یہاں تو بلوائی فلور آف دی ہاؤس کو پامال کرتے ہوئے چیئرپرسن کی کرسی پر بھی قابض ہو گئے اور سلفیاں بناتے رہے۔ کافی دیر کی تگ و دو کے بعد عمارت خالی کرائی جا سکی اور اجلاس دوبارہ شروع ہو سکا۔ دوبارہ تصدیق کے پورے عمل سے گزر کر اس بات کو ASCERTAIN کیا گیا کہ جو بائیڈن اور کمیلا حارث اگلے چار سال کے لیے امریکا کے بالترتیب صدر اور نائب صدر ہوں گے۔

کیپیٹل ہل پر حملے کے حوالے سے اس کی سیکیورٹی پر کئی سوال اُٹھ گئے ہیں۔ کیا امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس کا پتہ نہیں چلا کہ کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولا جائے گا۔ اگر ان ایجنسیوں کو اندازہ تھا تو انھوں نے کیا اقدامات کیے۔ متعلقہ اداروں اور افراد نے کیوں اپنا کام احسن طریقے سے انجام نہیں دیا۔ کیا وہاں بھی ادارے اور ذمے دار افراد حکومتی طاقتور شخصیتوں کے تابع رہتے ہیں اور مشکل وقت میں اپنے ملک کے مفاد کے تحفظ کے بجائے شخصی مفاد کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح اِن لینڈ سیکیورٹی اور پولیس کیا کر رہی تھی۔

دھاوا بولنے والوں کو واشنگٹن میں کیوں جمع ہونے دیا گیا اور ان کو پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف کیوں آنے دیا گیا۔ جب ساری حدیں پھلانگیں گئیں، در و بام ٹوٹنے لگے تو پولیس اور سیکیورٹی کے ادارے کیوں اس کی اجازت دیتے رہے۔ ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی دھاوا بولنے والے سفید فام کے بجائے کالے افریقی النسل ہوتے تو کیا پولیس اور سیکیورٹی کے ادارے اسی طرح مفلوج رہتے۔

سفید فام دھاوا بولنے والوں میں سے جن چند افراد کو پابند کیا گیا انھیں جیل کے بجائے ہوٹل میں رکھا گیا، کیا کالوں اور رنگ دار امریکیوں کو بھی یہی سہولتیں اور عزتیں ملتی ہیں۔ ان کی تو وہ درگت بننی تھی کہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھتیں۔

صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ اگلے چند دنوں میں یہ عمل مکمل ہونا مشکل ہے لیکن اگر یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے تو ٹرمپ شاید پہلے صدر ہوں گے جن کے خلاف دو بار مواخذہ ہوا البتہ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ کروڑوں لوگوں کے پسندیدہ رہنماء ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد 89ملین تھی۔ وہ ہار گئے لیکن انھوں نے 74ملین ووٹ حاصل کیے۔ شہری مراکز سے دور باقی سارے امریکا، خاص کر سفید فام اور بھارتی نژاد امریکیوں میں وہ بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بوئے ہوئے بیج سارے کے سارے تلف نہیں کیے جا سکتے۔

وہ ایک سوچ کے نمایندہ ہیں اور سوچوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے۔ جو بائیڈن کی حلف برداری کے دوران اور اس سے پہلے واشنگٹن میں خوفناک جھڑپوں کا احتمال ہے۔ واشنگٹن میں بڑی تعداد میں فوجی بلا لیے گئے ہیں۔ ان حالات میں ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا بدل چکا ہے۔ دھڑے بندیاں شدید ہو چکی ہیں۔ نفرتیں اور عداوتیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو اگر صدارت سے ہٹا بھی دیا گیا تو سوچوں کا یہ دھارا اپنی راہ بناتا رہے گا۔ امریکی معاشرہ پھٹنے کو ہے۔ اصل امریکیوں کی زمینوں پر قبضہ اورغلاموں کے خون پسینے پر پروان چڑھا سماج ایک آتش فشاں ہے۔ دیکھیے کون کون اور کیا کیا اس کے لاوے کی لپیٹ میں آتا ہے۔