Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Chand Bahut Aham Waqiat

Chand Bahut Aham Waqiat

پچھلے دو ہفتوں میں چند انتہائی اہم واقعات ہوئے ہیں جن کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 12مارچ کو چار ملکوں امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے سربراہوں کی QUAD میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے اصل ایجنڈے Rare Earthاور چین کے خلاف اتحاد کو ظاہری ایجنڈے کے پیچھے چھپا دیا گیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ کی آمد کے بعد چین اور امریکا کے مابین پہلی اعلیٰ سطحی میٹنگ الاسکا امریکا میں ہوئی جس کا ماحول کوئی بہت خوشگوار نہیں رہا اور ابتدا ہی تلخ جملوں سے ہوئی۔ پاکستان کے اندر جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیکیورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پہلے تو بھارت اور دوسرے پڑوسی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دوسرا پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

اکیسویں صدی کی دنیا انتہائی نایاب دھاتوں Rare Earth Metals پر چل رہی ہے۔ جس ملک کے پاس یہ انتہائی نایاب دھاتیں جتنی زیادہ ہوں گی وہ اتنا ہی اہم اور فائدے میں ہو گا۔ یہ دھاتیں اتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہیں کہ آج اور مستقبل کی دنیا کا ان کے بغیر تصور ممکن نہیں۔ امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان ہونے والی QUAD سربراہی ملاقات یوں تو بظاہر کووڈ 19وبا، موسمیاتی تبدیلیوں، اور جنوبی چینی سمندر میں کشمکش پر غور کر رہی تھی لیکن اس کا اصل ایجنڈا انتہائی اہم دھاتوں کے اوپر چین کی تباہ کن Cripplingموناپلی سے نبٹنا تھا۔

انتہائی اہم دھاتوں کی تعداد اس وقت 17ہے۔ یہ دھاتیں اتنی نایاب بھی نہیں جتنا کہ ان کے نام سے لگتا ہے۔ لیکن ان کی مائیننگMinning اور پھر دوسری دھاتوں سے الگ کر کے ریفائن Refineکرنا بہت مشکل ہے۔ سارا طریقے کار مکمل ہونے کے بعد حاصل ہونے والی خالص دھات کی مقدار بہت ہی قلیل ہوتی ہے۔ آج کا موبائل فون، بجلی سے چلنے والی گاڑیاں، تمام ہا ئی برڈ ٹرانسپورٹ، میزائل ٹیکنالوجی، گائیڈڈ سسٹم، ٹارگیٹنگ سسٹم، ہوائی جہازوں کے کئی بہت اہم پرزہ جات، لڑاکا طیارے، راڈار پر نظر نہ آنے اسٹیلتھ طیاروں کی ٹیکنالوجی، لیزر ٹیکنالوجی، نیوکلر بیٹریاں، چمکنے والے پینٹ، ہیڈ فونز، تمام سٹیلائٹس، لمبی مدت تک کام کرنے والے مقناطیس اور آبدوزیں اور دیگر بے شمار آلات جن کی پوری لسٹ کے لیے ایک کتاب مرتب کرنی پڑے گی، ان سب کا دار ومدار ان نایاب دھاتوں کی دستیابی پر ہے۔

ان دھاتوں کی پراسسنگ کے دوران علاقے کی آب و ہوا کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔ چین کے پاس اس قسم کے وسیع علاقے موجود ہیں جیسے گوبی ریگستان وغیرہ جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں، وہاں یہ عمل کیا جا سکتا ہے۔ چین نے اس عمل میں بہت پہلے مہارت حاصل کر کے ان دھاتوں کو ریفائن کرنے کی فیکٹریاں لگا لی تھیں۔

اس لیے سات سال پہلے تک نایاب دھاتوں کی دنیا میں کل پیداوار کا 90فی صد چین پیدا کر رہا تھا۔ 2010میں جاپان کے ساحل کے قریب SUNKAKU جزیرے پر چین کی ایک فشنگ بوٹ کو جاپان نے پکڑ لیا جس پر چین نے سخت احتجاج کیا لیکن جاپان نے کوئی اثر نہ لیا۔ بس پھر چین نے اپنا ہاتھ دکھایا اور جاپان کو نایاب دھاتوں کی سپلائی مکمل طور پر روک لی۔ جاپان کی بڑی بڑی صنعتیں بند ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر جاپان نے گھٹنے ٹیک دیے اور ہر جانے کی ادائیگی کرتے ہوئے فشنگ بوٹ واپس کر دی۔

چین نے معرکہ تو مار لیا لیکن امریکا سمیت ساری ترقی یافتہ دنیا کے اوپر آشکار ہو گیا کہ چین کس طرح سے ساری دنیا کو ایک گولی چلائے بغیر زیر کر سکتا ہے۔ چین کے پاس ان دھاتوں کی پوری دنیا کی کل مقدار کا 36.7فی صدذخیرہ ہے۔۔ اس کے علاوہ امریکا سمیت بہت سے ممالک اپنی دھاتوں کو چین بھیج کر ری فائن کرواتے ہیں۔

جاپان کو جب چین کے ہاتھوں دھچکا لگا تو اس نے امریکا سمیت کئی ممالک سے بات کر کے چین پر بھروسہ نہ کرنے کی تحریک چلائی تاکہ چین پر Dependenceکم کر سکے۔ بھارت کے پاس دنیا کی کل پیداوار کا 5.8فی صد ذخائر ہیں جب کہ آسٹریلیا کے پاس دھاتوں کے علاوہ ایسی ویسٹ لینڈز ہیں جہاں ان دھاتوں کو ری فائن کیا جا سکتا ہے۔ آسٹریلیا نے پراسسنگ کا کام پہلے ہی شروع کر دیا ہے اور چین جو پہلے نوے فی صد پیداوار دے رہا تھا اب اس Initiativeکی وجہ سے65فی صد پر آ چکا ہے۔

بھارت میں ان دھاتوں کی ایک بڑی مقدار تو ہے لیکن وہاں معدنیات نکالنے کے دقیانوسی طریقوں کی وجہ سے دنیا کی کل پیداوار کا صرف ایک فی صد پیدا ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا چند سال پہلے QUAD سے منہ موڑ گیا تھا لیکن2020میں کووڈ وبا پر چین اور آسٹریلیا کے تعلقات میں خاصی دوری آئی جس سے امریکا، جاپان اور بھارت نے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسٹریلیا کو واپس شامل کر لیا۔ بھارت بھی پہلے QUADسے ہچکچا رہا تھا لیکن لداخ میں چین کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد وہ ایک Activeرول ادا کرنے پر راضی ہو چکا ہے۔

یہ شاید پچھلی جمعرات تھی جب بائیڈن ایڈ منسٹریشن اور چین کی اعلیٰ قیادت کے درمیان الاسکا میں ایک ملاقات ہوئی۔ امریکا کی طرف سے وزیرخارجہ اور نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ جب کہ چین کی طرف سے وزیرِ خارجہ اور پولٹ بیورو میں خارجہ امور کے سینئر ترین ممبر اپنے اپنے وفود کے ساتھ شریک ہوئے۔ ملاقات خوشگوار ماحول میں شروع نہیں ہوئی کیونکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے چھوٹتے ہی چین پر الزامات لگا دیے جس سے فضا خاصی مقدر ہو گئی۔

چین نے کہا کہ وہ یہاں امریکیدعوت پر آئے ہیں اور بین الممالکی پروٹوکول کے تقاضوں کے برعکس امریکی رویہ معاندانہ ہے۔ پولٹ بیورو کے سینئر ترین ممبر نے امریکی وزیرِ خارجہ کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کس حیثیت میں ساری دنیا کی نمایندگی کر رہے ہیں جب کہ چینی وفد آپ کو صرف امریکی حکومت کا نمایندہ سمجھتاہے۔

چین کے وزیرِ خارجہ نے امریکا کو بتایا کہ آپ کے ملک میں جارج فلائیڈ کو کس طرح مارا گیا اور دوسرے افریقی نژاد باشندوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بعد میں بیجنگ نے ایک بیان میں کہا کہ چین بات چیت کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے گا اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ امریکی وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع اس کے بعد ٹوکیو اور سیول روانہ ہوئے اور وہاں اتحاد مضبوط کرتے ہوئے وزیرِ دفاع بھارت پہنچے اور انڈو پیسیفک بلاک کو مضبوط بنانے کے لیے ڈول ڈالا۔ امریکا بظاہر چین کو ایک طاقتور ہاتھ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اصل میں کمزوری عیاں تھی۔

طاقتور، تلاطم خیز جذبات میں بھی پرسکون رہتے ہیں Deeper rivers flow in majestic silence۔ امریکا پوری کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف ابھار سکے۔ بھارت پہلے ہی لداخ میں چین کے ہاتھوں پٹ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت گہرے تعلقات سے چین کو تو شاید کوئی نقصان نہ ہو لیکن پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔ پچھلی جمعرات کو ہی نیشنل سیکیورٹی ڈویژن نے اسلا م آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے شرکت کی۔

ڈائیلاگ کے سب سے اہم اسپیکر جنرل قمر جاوید باجوہ رہے جن کی تقریر کو ملک کے اندر اور باہر بہت کوریج ملی۔ پاکستان آرمی کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے ماضی سے یہ سیکھا ہے کہ خطے میں غیر حل شدہ مسائل کی وجہ سے جنوبی ایشیا غربت کا شکار ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ کسی اور سے بھلائی کی توقع کرنے سے پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے لیکن مذاکرات کو بامعنی بنانا بھارت کی ذمے داری ہے۔ ہمارے پڑوسی کو مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہوگا۔

جنرل صاحب نے اندرونی و بیرونی امن و استحکام، اکنامک سیکیورٹی اور معاشی سیکیورٹی و روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ بھی کہا کہ نیشنل سیکیورٹی صرف پاک فوج کی نہیں بلکہ پوری قوم کے اتحاد سے جڑی ہے۔ ان کے خیالات اور تجاویز بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر اس کو بہت سراہا اور ڈسکس کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ چند سال پہلے جب سابق وزیرِ اعظم نے گھر کو ٹھیک کرنے کی بات کی تھی تو اسے بھارتی ایجنڈا کہہ کر ناپسند کیا گیا تھا لیکن اب وہی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ لوگوں کی اس آبزرویشن میں بہت وزن ہے۔