Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. China Aur Bharat Tanaza Ki Wajah

China Aur Bharat Tanaza Ki Wajah

دوسری جنگِ عظیم میں جاپانی فوجیں برما تک پہنچ گئی تھیں۔ شاید تاریخ میں یہ واحد موقع تھا جب برِ صغیر پر مشرق کی جانب سے حملے کا خطرہ پیدا ہوا۔ اس سے پہلے تاریخ میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ کبھی مشرق کی جانب سے آکر حملہ آوروں نے برِ صغیر کو تاراج کرنے کی کوشش کی ہو۔

شمال مغرب سے اس پر حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ رہا ہے۔ اشوکا عہد کیسوا اس پورے خطے کو 1947سے پہلے کبھی مقامی قیادت بھی نصیب نہیں ہوئی۔ کوئی بھی نچلے یا اوسط درجے کی ذہانت و فطانت والا فرد یا گروہ اپنے علاقے سے باہر نکل کر دوسروں کو اپنی رعایا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ شمال مغرب کی جانب سے آنے والے حملہ آور کافی صلاحیتوں کے مالک اور تیز لوگ تھے۔

ان حملہ آوروں میں سے کئی ایک نے برصغیر کو ہی مسکن بنا کر اپنی تمام صلاحیت، ذہانت اور توانائیاں اس خطے کو ایک امیر خطہ بنانے میں صرف کر دیں البتہ انگریزی راج کا قصہ مختلف ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند کی آئیڈیالوجی اور فلسفے نے مشرق کو بہت متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ مت نے کامیابی سے مشرق میں اپنے پائوں جمائے لیکن ایک مرتبہ پھر یہ کہنا پڑے گا کہ برصغیر، مشرق کی جانب کبھی متوجہ نہیں ہوا۔ مشرق کی جانب سے کبھی کسی آئیڈیالوجی اور فلسفے نے ہند کو اپنی جانب متوجہ نہیں کیا۔

چین ایک بہت قدیم اور متاثر کن تہذیب وتمدن کا داعی ملک ہے۔ چینی اپنی تہذیب پر بہت فخر کرتے ہیں۔ قدیم چینی تہذیب نے چین کو ایک تہذیبی ریاست میں ڈھالا ہوا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ چین نے اپنی تہذیبی برتری کے باوجود برِ صغیر کی کپل وستو ریاست میں جنم لینے والے اور موجودہ ہندوستان پاکستان میں پنپنے والے بدھ مت کو قبول کر کے اسے اپنی تہذیبی گاڑی کا انجن بنا لیا۔

چین میں بدھ مت کے پیروکار ہندوستانی مذہبی فلاسفی سے اتنے متاثر تھے کہ چین کے لیے اس وقت کا ہند ایک ایسی جنت تھی جس نے بدھ مت جیسی مذہبی تحریکوں کو جنم دیا، ان کی آبیاری کی اور مشرقی ملکوں کو برآمد بھی کیا۔ بدھ مت کو قبول کرنے کے بعد چینیوں کی نظر میں برِ صغیر رشد و ہدایت اور روشنی کا ایک مینارہ رہا ہے جب کہ ہند نے کبھی چین یا مشرق کی جانب تحسین بھری نظروں سے نہیں دیکھا۔

قدیم زمانے سے برِ صغیر میں کبھی اس خواہش نے انگڑائی نہیں لی کہ وہ جاپانی یا چینی تہذیب سے بہرہ مند ہو۔ چین اور برِ صغیرکے درمیان کبھی سیاسی تعلقات پروان نہیں چڑھے البتہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہوتی رہی اور خوب پھلی پھولی۔ دونوں ملکوں کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ ٹریڈ کرنے کے لیے بہت سی اشیاء تھیں۔ چین ہند کی نظریاتی اساس کا بہت معترف تھا لیکن صدیوں تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی سیاسی مراسم قائم نہ ہو سکے، اس لیے دونوں کے مابین کوئی سیاسی گرم جوشی بھی دیکھنے کو نہیں ملی اور کوئی سیاسی تنازعہ بھی کھڑا نہیں ہوا۔

چین چونکہ ایک تہذیبی ریاست ہونے کا دعویدار ملک ہے اس لیے چین کی جانب سے عموماً ایک استعماری، استحصالی، اور توسیع پسندی پر مبنی رویہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن تاریخ میں مغرب اور جنوب کی جانب پھیلائو کے لیے چین اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر کارروائی کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ چین نے ایک سے زیادہ بار ویت نام پر حملہ کیا، سنکیانگ پر قبضہ کر کے اپنی مغربی سرحد کو توسیع دی اور تیرھویں صدی سے لے کر اب تک تبت پر قبضہ اور اپنے اندر سمونے کی بھرپور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

تبت پر چین کی عملداری قائم رکھنے میں برٹش انڈیا نے بھی چین کا بہت ساتھ دیا۔ برطانیہ نے ایک طرف تو اپنے مفادات کی خاطر چین پر سو سالہ افیون جنگ مسلط رکھی جس سے چین کی کم از کم تین نسلیں بری طرح متاثر ہوئیں لیکن ساتھ ہی تبت کی طرف روس کی للچائی نظروں کو بھانپتے ہوئے تبت میں چین کے ہاتھ مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ برِ صغیر کی جانب سے تبت پر چڑھائی بہت مشکل ہے۔

ہمالیہ برِ صغیر کی طرف سے تبت کی طرف پیش قدمی کے راستے میں ایک بڑی اور کٹھن رکاوٹ ہے گویا کہ ہمالیہ ایک کوہِ گراں ہے۔ زارِ روس کی فوجوں کو وسط ایشیائی ریاستوں سے تبت پہنچنے کے لیے ہمالیہ دامن گیر نہیں ہوتا تھا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کی جانب سے تبت پہنچ کر یلغار ممکن اور آسان ہے۔ برٹش انڈیا میں انگریزوں نے جب دیکھا کہ زارِ روس تبت کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہے تو روس کے اٹھتے قدم روکنے کے لیے تبت پر چین کے قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے1904میں چینی عملداری Suzerainty کو مان لیا۔

اس سے کچھ پہلے جاپان نے روس کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا۔ اس شکست نے روس کو کمزور بھی کیا اور اس کے بین الاقوامی تشخص کو بہت نقصان بھی پہنچایا۔ روس کی جاپان کے ہاتھوں شکست کا برطانیہ نے فوراً فائدہ اُٹھایا اور روس سے بھی چینی عملداری کو تسلیم کروا لیا۔ چین تو اس وقت ایک بہت ہی کمزور ریاست تھا اور توسیع پسند روس اس کو کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا لیکن برٹش انڈیا کے چینی عملداری کو مان لینے کے بعد اب روس کو چین کے ساتھ ساتھ انگریزوں سے بھی پنجہ آزمائی کرنی پڑتی نظر آئی۔

انگریزی قوت ہر طرف اپنی برتری منوا چکی تھی اور دنیا کی واحد سپر پاور بنی ہوئی تھی ایسے میں تبت کے اوپر چینی عملداری تسلیم ہونے سے روس کے بڑھتے قدم رک گئے۔ تبت پر چین کی Suzeraintyتسلیم ہونے سے تاریخ میں پہلی بار چین کی سرحدیں برِصغیر اور آج کل کے ہندوستان سے آ ملیں اور یوں دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار ایک سیاسی رشتہ قائم ہو گیا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ ان جنگوں میں شامل دونوں اطراف کے ممالک میں امریکا واحد ملک تھا جس کی مین لینڈ پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ جنگ سے براہِ راست متاثر نہ ہونے کی وجہ سے اس وسیع و عریض ملک کے بے پناہ وسائل اور پیداواری صلاحیت بھی جنگ سے متاثر نہیں ہوئی۔ ادھر جنگ کی تباہ کاریوں سے برباد لوگ، بہتر مواقع کی تلاش میں امریکا کی جانب رُخ کرنے لگے۔ اس عمل سے دنیا کے بہترین دماغ اسی ہلے میں امریکا پہنچے۔

جرمنی اس وقت تک سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھا۔ جرمنی کی تباہی نے امریکا کو ایک نئی Land of Oportunity کے طور پر متعارف کروایا۔ امریکا کو ساری دنیا سے بہترین دماغ مل جانے سے ہر فیلڈ خاص کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت سرعت سے ترقی ملی۔ امریکا اپنے بے پناہ وسائل اور روز افزوں جدید ہتھیاروں کی وجہ سے جلد ہی ایک سپر پاور کے طور پر ابھرنے لگا۔ اس کے پاس چونکہ اچھے دماغ تھے اس لیے امریکا نے برطانیہ کو ایک سپر پاور کے مقام سے ہٹانے کا بروقت فیصلہ کر لیا۔

برطانیہ کی نوآبادیوں میں برِصغیر کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ جب تک برِ صغیر پاک و ہندبرطانیہ کے ہاتھ میں تھا اسے سپر پاور کے مرتبے سے نیچے دھکیلنا نا ممکن تھا۔ امریکا نے برطانیہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے اس پر یہ کہہ کر دبائو ڈالا کہ برطانوی افواج کی تنخواہیں تک امریکا دے رہا ہے اس لیے برطانیہ کو فی الفور برِ صغیر کو آزاد کر دینا چاہیے۔

برطانیہ اپنے طور پر 1970 کی دہائی تک یہاں قیام کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔ جب امریکا نے افواج کی مزید تنخواہیں دینے سے ہچکچاہت دکھائی تو برطانیہ نے لمبے عرصے تک یہاں قیام کے منصوبے کو دفن کیا اور جلدی میں بوریا بستر لپیٹ کر چلتا بنا۔ اس طرح بھارت اور پاکستان دو آزاد ملک دنیا کے نقشے پر ابھر آئے۔

برطانیہ جہاں جہاں سے رخصت ہوا وہاں مسائل چھوڑ کر گیا۔ برطانیہ نے جہاں پاکستان اور ہندوستان کے لیے جھگڑے چھوڑے وہیں اس نے چین کے ساتھ ہندوستاں کی سرحد کو بھی حتمی شکل نہیں دی۔ بھارت اور چین کے درمیاں لگ بھگ 3440کلومیٹر کی سرحد ہے۔ برطانیہ تو نکل گیا لیکن اس غیر حتمی سرحد کی وجہ سے بھارت اور چین کا پہلی مرتبہ سرحدی تنازعہ شروع ہو گیا۔ وہ ملک جو صدیوں تک چینیوں کے لیے رشد و ہدایت کا منبع تھا اب ایک دشمن ملک بن گیا۔