فطرت اپنے قوانین کو بہت سختی اور بے لاگ طریقے سے نافذ کرتی ہے، وہ عناصر جو فطرت کے قوانین پر تندہی سے عمل پیرا ہوتے ہیں وہ پھلتے پھولتے اور نشو و نما پاتے ہیں، اس کے مقابلے میں وہ عناصر جو ذرہ برابر بھی کوتاہی دکھاتے ہیں مقابلے کی دوڑ سے باہر کر دیے جاتے ہیں اور پھر شاید ہی دوبارہ میدانِ عمل میں موقع پا سکتے ہوں۔
فطرت، نیچر یا قدرت چاہے اسے کسی بھی ٹائیٹل سے پکارا جائے، بے رحم ہے اور بہت Efficientیعنی مستعد ہے، فطرت میں کسی بھی عنصر نے اگر اپنا وجود قائم رکھنا ہے تو اسے فطرت کی اُس کے لیے مقرر کردہ مستعدی کے معیار پر پورا اترتے ہوئے، ہر لمحہ کام کرنا ہوتا ہے ورنہ تباہی اس کامقدر بن جاتی ہے۔ یوں تو کائنات کی کوئی چیز بھی ناکارہ نہیں، ہر ہر ذرہ، ہر ہر فرد اپنی جگہ پر انتہائی اہم ہے، کوئی نکما نہیں قدرت کے کارخانے میں، لیکن کیا وہ اپنے پورے پوٹنشل Potentialکے مطابق کام کر رہا ہے۔ اگر کر رہا ہے تو اس کا مستقبل درخشاں ہو گا، اور نہیں تو وقت کے ساتھ معدوم ہو جانا اس کا مقدر ٹھہرے گا۔
ہم اپنے لواحقین خصوصاً ماں باپ اور قریب ترین رشتہ داروں سے جیسا سلوک روا رکھیں گے ویسا ہی بھریں گے۔ اگر کوئی بد بخت فطرت کے مقاصد سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے والدِ مکرم سے ناروا سلوک رکھے گا تو اس کو جان لینا چاہیے کہ وہ وقت انتہائی قریب ہے جب کہ اس کی اولاد میں سے کوئی ایک اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے جو اس نے اپنے والد کے ساتھ کیا۔ اسی طرح اگر کوئی انتہائی بدبخت اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ ناروا سلوک کا مجرم ٹھہرے گا۔
وہ والدہ جس نے تکالیف سہہ کر کئی مہینے اسے اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم لینے کے قابل بنایا اور پھر راتوں کو جاگ جاگ کر اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا۔ وہ خود اس کی گیلی کی ہوئی جگہ پر سو گئی اور اسے آرام اور راحت دی۔ اس کی گندگیوں کو صاف کیا۔ اس کو نہلایا، دھلایا۔ خود کھایا کہ نہیں لیکن اس کی خوراک بہم پہنچائی اگر آپ ایسی رحیم ہستی کے ساتھ نارواسلوک روا رکھیں گے تو صرف وقت کی بات ہے، انتظار کریں جب آپ کو وہی کچھ ملے گا جو آپ نے بویا ہے۔ ہم انسان انتہائی کمزوری میں پیدا ہوتے ہیں اور عام طور پر بڑھاپے کی کمزور حالت میں اس دنیا کو چھوڑتے ہیں۔ ہم کوئی اٹھارہ سال کی عمر میں پوری توانائیوں کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ ہمارے پہلے دو تین سال بہت محتاجی کی حالت میں ہوتے ہیں۔
پھر پندرہ سولہ سال تک ماں باپ جیسی شفیق ہستیوں کے سائے تلے پرورش پاتے ہیں۔ وہ ہمیں اس وقت تک سنبھالتے ہیں جب تک ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح ہم انسان کوئی پچاس پچپن سال کی پختہ عمر میں دنیا سے رخصت نہیں ہو جاتے کہ ہمیں کسی دوسرے کی مدد درکار ہی نہ ہو۔ ہم میں سے اکثر ایک بار دوبارہ لاچارگی اور لاغر پنے کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں اب اولاد کی باری ہوتی ہے کہ وہ خدمت کر کے والدین کو کسی کا دستِ نگر نہ ہونے دے اور ان کو انتہائی عزت و وقار کے ساتھ زندگی کے باقی دن پورے کرنے دے۔ بچوں کی کما حقہ ہو پرورش اور والدین کے بڑھاپے میں سہارا عین فطرت کا تقاضہ ہے۔ جو بھی اس سے روگردانی کرے گا۔ خسارے میں رہے گا فطرت اسے معاف نہیں کرے گی۔
فطرت کا قوم سے بھی یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرتے ہوئے اپنے آپ کو باقیوں سے بہتر بنائے اور قوموں کی گیلیکسیgalaxyمیں زیادہ روشن کرے۔ قدرت کے نظام میں سُستی اور جاہلیت کی کوئی جگہ نہیں۔ نظامِ عالم میں اگر کوئی قوم غافل ہے۔ وقت کے تقاضوں سے نا آشنا ہے، نابلد ہے، سست اور جاہل ہے تو صرف وقت کی بات ہے ایسی قوم نے مدار orbitسے باہر ہو کر رہنا ہے۔ آپ سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں کو دیکھ لیں بلکہ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنی زمین کو ہی دیکھ لیں۔
ہماری یہ زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں بھی مسلسل تیر رہی ہے اور اپنے محور پر بھی گھوم رہی ہے۔ سورج کے گرد یہ ایک سیکنڈ میں 30کلومیٹر اور ایک گھنٹے میں 67000 کلومیٹر کی رفتار سے چکر لگا رہی ہے اسی طرح اپنے محور پرکوئی 1000کلو میٹر کی اسپیڈ سے گھوم رہی ہے۔ زمین اپنا یہ فرض نبھانے میں بہت مستعد ہے۔ اگر اس کی رفتار تھوڑی سی زیادہ یا تھوڑی سی کم ہو جائے تو قدرت اسے معاف نہیں کرے گی کیونکہ اس سے تمام نظامِ عالم تہہ و بالا ہو کر رہ جائے گا اور جو تباہی مچے گی اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
زمین اور پھیلتی کائنات کے تمام اجرامِ فلکی ایک مقرر کردہ تقدیر کے پابند ہیں۔ اپنے فرض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہیں اور سرِ مُو انحراف نہیں کرتے۔ یہی اصول ہر جگہ کارفرما ہے اور زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات بھی اسی نظامِ قدرت کے ماتحت ہیں۔ اگر کوئی قوم غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔ اس کے افراد کی اکثریت سست ہے۔ اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور زمانے کی رفتار سے نابلد اور جاہل ہیں تو قدرت انتقام لے کر رہے گی۔ فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے۔۔۔ کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف۔
نظامِ شمسی میں ہماری زمین کو ایک طرح سے بہت خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کائنات کے بارے میں ہماری ہر روز بڑھتی تگ و دو اور تحقیق کے باوجود ابھی تک یہ واحد کُرہ ہے جہاں زندگی موجود ہی نہیں بلکہ انسان جیسی عقل و شعور اور ارادے کے ہتھیار سے لیس مخلوق پائی جاتی ہے۔
ہماری یہ زمین بھی قدرت کے قوانین کو بہت مستعدی سے نافذ کرتی ہے اس لیے کسی سستی کو برداشت نہیں کرتی۔ اگر آپ ایک ہی قطعہ زمین پر غور کریں تو بظاہر ایک جیسی سورج کی روشنی۔ ایک جیسے پانی، ایک جیسی آب و ہوا میں پیدا ہونے اور پلنے والے پودوں میں سے وہ پودے سوکھ جاتے ہیں جو efficientنہیں ہوتے۔ قدرت کے نظام میں بدلتے حالات سے جو نباتات و حیوانات و انسان ہم آہنگ نہیں ہوتے، جو Changeکو قبول کر کے اپنے آپ کو اس کے مطابق بہترین طریقے سے ڈھال نہیں لیتے، جو Crisesمیں سینہ سپر نہیں ہوتے وہ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
Changeاور Crisesاس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ آپ مضبوطی سے حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نبرد آزما ہوں اور مقابلے کے ہتھیار اٹھانے میں دیر نہ کریں۔ اگر آپ وقت کے اوپرمعاملہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقین کر لیں آسمانوں کی وسعتیں آپ کے لیے کھلتی چلی جائیں گی اور اقبال کا یہ کہنا کہ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے، حرف بحرف سچ ہو کر رہتا ہے۔
ہیملٹ میں شیکسپیئر اسی جانب اشارہ کرتا ہے جب مشہور Soliloqyمیں ہیملٹ کہتا ہےTo take arms against a sea of troubles and by opposing end them.۔ فرد ہو یا قوم صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا عین عقلمندی ہے۔ فطرت اور عقل و خرد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب ہم فطرت کو عقل سے مہمیز کرتے ہیں تو رنگ و بو کا ایک جہاں ہمارے ہاتھ آتا ہے۔ کچھ یہی بات یوں کہی گئی ہے۔ فطرت کو خرد کے رو برو کر…تسخیرِ جہانِ رنگ و بو کر۔
قدرت کے نظام میں افادیت کو بہت دخل ہے۔ پہلی چند صدیوں میں مسلمان اپنے بہترین اعمال وکردار کی و جہ سے نظامِ عالم کے لیے بہت مفید تھے تو ہر جگہ کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ وہی پھلتے پھولتے ہیں جو مفیدِ مطلب ہوتے ہیں۔ جو محنت کرے گا وہی آگے بڑھے گا، ناکارہ لوگوں کے سروں پر تاج سجے نہیں رہتے۔ کانپنے والے قدم کبھی چوٹی سر نہیں کرتے۔ غفلت ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان کو بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم باہم دست و گریبان ہیں اور دوسری طرف چوری، ڈاکا، اقربا پروری، دھوکا، جھوٹ، دغا بازی اور نہ جانے کتنی غیر فطری سماجی اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ بھی نہیں رہے۔ ڈر ہے کہ فطرت اپنا فیصلہ نہ دے دے۔ خدا کرے فطرت کے تازیانے سے پہلے ہم سنبھل جائیں۔