پاکستان کے مغرب میں کئی ممالک عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ عدم استحکام پچھلے چند مہینوں میں بہت نمایاں ہو کرسامنے آیا ہے، شام میں کئی گروہ بر سرِ پیکار ہیں، عراق اس وقت شدید ترین ہنگاموں کی زد میں ہے، وہاں روزانہ توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ ہو رہا ہے اور آخری خبریں آنے تک حکومت استعفیٰ دے چکی تھی لیکن عراق پر پھر بات ہو گی فی الحال اپنے پڑوسی ایران کا جایزہ لیتے ہیں۔
نومبر کے مہینے میں ایران کے اندر پُر تشدد ہنگامے ہوئے جن سے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچا بلکہ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے الزام لگایا ہے کہ ایک سو چالیس سے زیادہ افراد ان ہنگاموں کی وجہ سے لُقمہ اجل بن گئے۔ ایک عام سروے کے مطابق 731بینک اور140 سرکاری عماراتیں جل کر راکھ ہو گئیں۔
ایران میں یہ پر تشدد مظاہرے 15 نومبر 2019 کو اس وقت شروع ہوئے جب صدر جناب حسن روحانی کی حکومت نے پٹرول کی قیمتیں پچاس سے دو سو فیصد تک بڑھا دیں اور ساتھ ہی تیل اور اور اس کی مصنوعات کی راشننگ کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے برسرِاقتدار آنے کے فوراً بعد ایران کے ساتھ ہونے والی نیوکلیر ڈیل سے امریکا کو الگ کرکے معاشی، اقتصادی اور فوجی پانبدیاں عائد کردیں اور ایران کی حکومت کی تبدیلی کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے حتیٰ کہ ایرانی سفارت خانوں کو اپنی معمول کی سفارتی سر گرمیاں جاری رکھنے کے لیے فارن کرنسی میں جو رقوم دستیاب ہونی چاہئیں وہ بھی ناپید ہیں۔
اس وقت ایرانی معیشت کو بڑے سہارے کی ضرورت ہے، ایران کے اندر عوام کے استعمال کے لیے تیل اور اس کی مصنوعات پرحکومت کی طرف سے کافی بڑی سبسڈی دی جارہی تھی۔ ایک گیلن پٹرول پچاس سینٹ میں دستیاب تھا جس کی وجہ سے ایک تو ایرانی عوام کھُل کر پٹرول کا استعمال اور ضیاع کرتے تھے اور بہت سستا ہونے کی وجہ سے تیل کی ایک بہت بڑی مقدار اسمگل ہو جاتی تھی ا ِس طرح یہ سستا تیل ایرانی معیشت میں خا طر خواہ مثبت کردار ادا نہیں کر پاتا تھا۔
بیان کردہ صورتحال سے نکلنے کے لیے ایرانی حکومت نے بظاہر کافی غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ تیل کی راشننگ کر کے قیمتیں بڑھا دی جائیں۔ پندرہ نومبر کی صبح جب ایرانی عوام نیند سے بیدار ہوئے تو پٹرول کی قیمت پچاس سے دو سو فیصد بڑھ چکی تھی۔
پٹرول کی خریداری کے لیے پہلے ساٹھ لیٹر پر پچاس فیصد زیادہ رقم جب کہ ساٹھ لیٹر سے اوپر پٹرول ڈلوانے پر دو سو فیصد زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ تمام غیر جانبدار ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انتہائی غیرمقبول لیکن شاید درست اور اہم فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ جس سطح کی قیادت کو جن معلومات اور ڈیٹا کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے وہیں ہوا لیکن اس فیصلے کو لاگُو کرنے کی ٹائمنگ پر زیادہ تر کی رائے یہ ہے کہ ٹائمنگ مناسب نہیں تھی، عوام کو اس فیصلے کی ضرورت سے آگاہ کر کے تیار کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر اسی فیصلے کو عوام کے ساتھ شیئر کر کے پوری صورتحال اُن کے سامنے رکھ دی جاتی تو عین ممکن ہے عوام اپنے ملک کی بگڑتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بخوشی قربانی دیتے اور یہ ردِ عمل نہ ہوتا۔
ایرانی انقلاب کے بعد کئی مرتبہ احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں لیکن ہر بار ایرانی حکومت ان پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس دفعہ یہ پر تشدد مظاہرے مشہد میں شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زائد شہروں میں یوں پھیلے گویا آگ لگ گئی ہو۔ ایرانی قیادت کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔ ان کے پوسٹر نذرِآتش ہوئے، ڈکٹیٹر کہا گیا اور مرحوم بادشاہ رضا شاہ پہلوی سے عقیدت کا اظہار کر کے ان کے بیٹے کو واپس لانے کے حق میں نعرے بازی کی گئی۔ امریکا، یورپین یونین اور اقوامِ متحدہ نے مظاہروں کی حمایت کی اور ساتھ ہی ایران کی مذمت کی۔
ایران میں قومی سطح کے بہت ہی اہم فیصلے کرنے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی قائم ہے جس میں ایران کے صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ شامل ہیں، صدر اس کو چیئر کرتے ہیں اور سپریم لیڈر کی منظوری سے اس طرح کیے گئے فیصلے نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ بھی اسی کمیٹی نے کیا۔
ایران میں اشیائے خورد و نو ش کی قیمتیں زیادہ ہیں ایسے میں تیل کی قیمتیں دو سو فیصد تک یکدم بڑھ جانا عوام خاص کر درمیانے اور تنخواہ دار طبقے کو بہت برا لگا ہو گا۔ پرتشدد ہنگاموں کے پیش نظر حکومت نے فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ کی سہولت فوراً ختم کر دی جائے جس سے صارفین کی ایک دوسرے تک رسائی بہت ہی محدود ہوگئی۔
اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رابطہ بہت ہی کم ہو کر رہ گیا۔ ایک غیرجانبدار مبصر نے بتایا کہ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو انٹرنیٹ کی سہولت موجود رہی۔ واشنگٹن میں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اور ایران مخالف ہاکس نے کہا کہ تہران مخالف مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی پابندیاں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مظاہروں کے حق میں ا مریکہ کے اندر سے اُٹھنے والی ان آوازوں نے مظاہرین کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ ایرانی عوام کو فوراً یہ احساس ہو گیا کہ مظاہرے اگر کامیاب ہوئے تو ایران کی نہیں بلکہ امریکا کی بن آئے گی۔ اس دوران جب ہر طرف آگ اور خون کا کھیل جاری تھا ایران کے سپریم لیڈر جو ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر اِن چیف بھی ہیں۔
انھوں نے بیان دیا کہ تیل کی قیمتوں کے بڑھنے سے بلاشبہ عام آدمی متاثر ہوگا لیکن ایران کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ ناگزیر ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا، صیہونی قوت اور ایرانی خود مختاری کے مخالفین سرمائے کے ذریعے سے سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، سپریم لیڈر کے بیان سے ایرانی انتظامیہ کی سمت متعین ہو گئی اور واضح ہوگیاکہ یہ فیصلہ قطعی ہے۔ خفیہ ادارے اور پاسدارانِ انقلاب حرکت میں آ گئے اورآہنی ہاتھ نے فضاصاف کر دی۔ 27نومبر کو سپریم لیڈرنے اعلان کیا کہ ایران کے دشمن پسپا ہو چکے ہیں اور ایرانی عوام فتحیاب ہو چکے ہیں۔
یوں دیکھتے ہی دیکھتے پُرتشدد احتجاج اور مظاہرے دم توڑ گئے۔ اس میں بالکل دو رائے نہیں کہ مسلسل پابندیوں نے ایرانی عوام کے لیے بے شمار مشکلات کو جنم دیا ہے، ساتھ ہی ایران لبنان میں حزب اﷲ، شام میں اپنے حامیوں اور یمن میں حوثی قبائل کی مدد کر رہا ہے، ان تمام ایڈونچرز پر بے پناہ سرمایہ درکار ہوتا ہے جس کی قیمت ایرانی عوام کو مہنگائی کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے۔
امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک ایران کے اس کردار سے بہت تنگ ہیں اسی لیے احتجاج تو تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف شروع ہوالیکن ایک ہی دن کے بعد مہنگائی مظاہرین کی زبانوں سے غائب ہو گئی اور حکومت مردہ باد لبوں پر آ گیا۔ اس کا صاف صاف مطلب امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک کی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت کی تبدیلی تھی لیکن فی الحا ل وہ ایک دفعہ پھر ناکام ہو چکے ہیں البتہ ایرانی حکومت کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔ ایرانی پولیٹیکل سسٹم کے ریڈیکل اوور ہال کی شدید ضرورت ہے، اس پرتساہل نہیں بلکہ بہت تیزی سے کام ہونا چاہیے۔
قارئین کرام چند دن پہلے پاکستان اور دنیائے اسلام کے ایک بطلِ جلیل، وفاقی شرعی عدالت کے جج ہِز لارڈشپ جسٹس ڈاکٹر فدا محمد اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خاقِ حقیقی سے جا ملے، آپ کچھ عرصہ کے لیے سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ کے جج بھی رہے، اسلامی اور عصری علوم پر آپ کی گہری نگاہ تھی، آپ ایک ایسے مینارہء رشدو ہدایت تھے۔
جس سے مجھ سمیت لا تعداد افراد نے استفادہ کیا۔ آپ ایک عظیم اسکالر، مدبر، استاد، منصف اور باعمل مسلمان تھے۔ آپ کے علم و فضل کے بارے میں میرے جیسے کوتاہ قد کے لیے قلم ا ٹھانا ایک بہت بڑی جسارت کرنے کے مترادف ہے۔ آپ کے لکھے ہوئے فیصلے سعودی عرب، مصر اور ملائیشیا میں منگوائے جاتے تھے۔ قارئین سے التماس ہے کہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا فرمائیں اور اگر کسی کو ان کی عظیم شخصیت کے بارے میں کوئی معلومات شیئر کرنی ہوں تو میرے ساتھ 0300 5146088پر یا میرے ای میل پر رابطہ فرمائیں۔