دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر روز کوئی محیرالعقول ایجاد سامنے آ جاتی ہے اور عقلوں کو خیرہ کرتی، محوِ حیرت چھوڑ دیتی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سید علی ہجویری حضرت داتا گنج بخش نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں جب لاہور میں رہائش اختیار کی تو عبادت کے لیے موجودہ مسجد ہی کی جگہ نماز کا اہتمام ہونے لگا مگر چند نمازی حضرات کو مسجد کے قبلے کے صحیح ہونے پر شک گزرا۔ حضرت داتا صاحب سے بات کی گئی تو حضرت اُس وقت تو خاموش رہے مگر اگلے دن نماز کے بعد آپ نے نمازیوں کو کہا کہ سامنے دیکھیں، نمازیوں نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو نظروں کے سامنے کعبہ مشرفہ نظر آ رہا تھا۔
یہ حضرت کی ایک بہت بڑی کرامت تھی لیکن آج غیر مسلموں کے ایجاد کردہ ٹیلی وژن کی بدولت ہم سعودی عرب کے ایک چینل کے ذریعے سارا دن کعبہ مشرفہ اور دوسرے سعودی چینل کے ذریعے ہمہ وقت مسجدِ نبوی شریف کے براہِ راست دیدار سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ ا ب سائنس اورٹیکنالوجی میں بے انتہا ترقی کی بدولت اتنی بڑی فضیلتیں ہر فرد کو حاصل ہیں جو پہلے چند خاص نیک ہستیوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں۔
عمیق مشاہدہ، تیز نگاہ اور تجربے سے حاصل ہونے والے علم کو ہم عام طور پر سائنس کہتے ہیں۔ یہ کائنات جس میں ہمارا سولر سسٹم اور ہماری دھرتی موجود ہے، ایک مادی کائنات ہے۔ مادے کے اپنے قوانین ہیں۔ مادے کے انھی قوانین کو جاننا اور پھر ان کو ایپلائی applyکر کے ایجادات کرنا سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں ترقی تو ایک جاری عمل Continuous process رہی ہے لیکن یہ ترقی بہت سست رفتار سے آگے بڑھتی رہی ہے یہاں تک کہ صنعتی انقلاب نہیں آ گیا۔ صنعتی انقلاب نے دھرتی پر رہنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب لا کر ایسی ایسی سہولتیں بہم پہنچا دی ہیں جن کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ایسے تباہ کن ہتھیار بن چکے ہیں کہ ان کے بے جا استعمال سے روئے زمین پر پوری آبادی چشمِ زدن میں تباہی اور ہولناکی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ کیا دو تین سو سال پہلے کا انسان یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ انسان ہوائی کھٹولے یعنی جہاز میں اُڑ کر لمبے لمبے فاصلے بہت کم وقت میں طے کر لے گا۔ کیا وہ یہ تصور کر سکتا تھا کہ ہزاروں میل دور ہونے والا کوئی بھی واقعہ آج کا انسان اپنے گھر میں بفراغت ہوتے دیکھ رہا ہو۔
کیا پہلے ممکن تھا کہ ہماری زمین سے رخصت ہونے والا خلائی جہاز مریخ پر ٹھیک اس جگہ اتر رہا ہو جہاں اترنے کے لیے اسے ہدایات دی گئی ہوں اور ہم اسے مریخ پر اترتے بھی دیکھ رہے ہوں۔ کیا چند سو سال پہلے کا انسان میڈیکل کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے بارے میں سوچ بھی سکتا تھا۔ کیا وہ سوچ سکتا تھا کہ جگر ٹرانسپلانٹ ہو جائے گا۔
انجیوگرافی کے ذریعے اس کے دل کی شریانوں کو نہ صرف ٹھیک ٹھیک دیکھ لیا جائے گا بلکہ کسی بھی شریان میں دوڑتے خون کے آگے رکاوٹ کو STENT کے ذریعے کھول کر دل کو صحت مند بنا دیا جائے گا۔ یہ اور ان گنت ایسی ایسی ایجادات اور Procedures ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن چکے ہیں کہ آج کا انسان ان پر کسی حیرت کا اظہار نہیں کرتا اور ان کوTaken for grantedلیتا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حالیہ عہد میں کسی بھی ایجاد میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں سات سو کے لگ بھگ ایسی آیات ہیں جو خالص سائنسی نوعیت کی ہیں۔ میں پوری ذمے داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ادیانِ عالم کی کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ صورتِ حال نہیں۔ اگر کہیں کسی کتاب میں کسی جگہ کوئی جملہ مل بھی جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس پر سوال مت اٹھاؤ، شک مت کرو، ایمان کی بات ہے اس پر ایمان لے آؤ لیکن قرآنِ مجید کا ایک بڑا حصہ ہمیں غور و فکر، تدبر و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔
عقل والوں اور اہلِ علم کو جھنجھوڑتا ہے۔ دینِ اسلام کی پیروی کرنے والوں نے ابتدائی چند صدیوں تک سائنسی علوم میں بہت دلچسپی لی اور دنیا کو Scientific Inquiryکی روایت سے مالا مال کیا، لیکن اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں بھی قرآنِ مجید میں پائی جانے والی سائنسی نوعیت کی آیات سے مکمل استفادہ کا پروگرام نہیں بنایا گیا۔ قرآنِ مجید میں اجرامِ فلکی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ تمام اجرامِ فلکی مستقل رواں دواں ہیں۔
اگر ایسی آیات کو سمجھ لیا جاتا تو صدیوں تک یہ کیوں مان لیا جاتا کہ زمین ساکت ہے اور سورج اور سولر سسٹم کے سیارے زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اب جب کسی متعلقہ فیلڈ میں نئی دریافت ہو جاتی ہے تو ہمارے مسلمان کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو قرآنِ مجید کی فلاں آیت میں لکھا ہوا ہے۔ جی ہاں یقیناً لکھا ہوا تو ہے لیکن اس علم سے ہم دنیا کو اس لیے آگاہ نہیں کر سکے کیونکہ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی سے ایک زمانہ ہو گیا، منہ موڑ لیا جب کہ اسلام کی پہلی تین چار صدیوں تک تمام سائنسی علوم کو آگے بڑھانے والے مسلمان اہلِ علم تھے۔ پھر روشن دین پر ملائیت کا غلبہ ہو گیا۔
عیسائی دنیا صدیوں تک اپنے اہلِ علم اور سائنس دانوں کی آواز دباتی رہی۔ جب عیسائی دنیا سائنسی علوم کے لیے جاگ رہی تھی، ہمارے ہاں ملائیت کی وجہ سے اندھیروں کی طرف سفر شروع ہو گیا تھا۔ پرنٹنگ پریس پر قدغنیں لگی رہیں، یوں علم و فنوں کا چرچہ ہونے کے بجائے، اجالوں کے بجائے اندھیروں کا راج ہونے لگا جو ابھی بھی بہت حد تک جاری و ساری ہے۔
میتھMathematics سے پہلو تہی کرتے کرتے ہم ذہنی سطح میں بہت پیچھے چلے گئے۔ Mathematics ایک ڈسپلن کے طور پر سائنس کی دنیا کی ملکہ ہے۔ میتھ میں کوشش کرنے سے دماغ کی راہیں وا ہوتی ہیں۔ سائنس کے ہر مضمون میں بہترین صلاحیت حاصل کرنے کے لیے میتھ میں بہت اچھا ہونا لازمی ہے۔
کیمسٹری، فزکس، آسٹرولوجی، زوآلوجی، باٹنی ہر مضمون میں Equationsاور Numericals کا حل کرنا اور سمجھنا، سمجھانا بہت اہم ہے۔ اگر آپ میتھ میں کمزور ہیں تو آپ کے پاؤں دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں، آپ بے نیل و مرام لوٹ آتے ہیں۔ میتھ میں اچھی قوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمیشہ آگے ہو گی بشرطیکہ اس قوم کے پاس ایک صحت مند سائنس پروگرام ہو۔ اگر کسی قوم کے پاس ایک اچھا صحت مند پروگرام ہے تویہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اس قوم کا معاشی مستقبل شاندار ہو گا۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ قوم ایجادات کرنے او Innovate کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایجادات کرنے اور Innovationکی وجہ سے ملازمتیں پیدا ہوں گے اور ملازمتیں وہیں رہیں گی۔ اچھے ذہین افراد کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہیں۔ چونکہ ایسی قوم ایجادات کی اہل ہوتی ہے اس لیے ایجادات کو اپنی مرضی کے نام دینے کا حق رکھتی ہے۔ اپنی ایجادات اپنی قوم کو سستی اور دوسروں کو مہنگا بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔
اسرائیل کی یہودی ریاست نے اپنے قیام کے فورًا بعد ایک حیران کن پروگرام کا آغاز کر دیا۔ ہر حاملہ یہودی ماں کو بچہ پیدا ہونے تک تمام عرصہ حساب کے سوالات اور سائنس کی Equations کو سمجھنے کے لیے مصروفِ عمل کر دیا جاتا ہے تاکہ یہودی بچے سائنس کی دنیا کے روشن ستارے بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس میں اکثر نوبل انعامات جیتنے والے افراد یہودی ہیں۔ 2015میں ایک ایک بڑی ادبی کانفرنس میں اکادمی ادبیات کے سربراہ کے طور پر میں نے وزیرِ اعظم کی موجودگی میں اہلِ قلم سے یہی درخواست کی تھی کہ ایک ادبی تحریک چلائیں جس میں قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا گرویدہ بنائیں۔ میری تمام ہم وطنوں سے دست بستہ التجا ہے کہ اسے ایک تحریک کی شکل دیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر فرد اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہمارا سنہری معاشی مستقبل پنہاں ہے۔