صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی چار سالہ صدارتی مدت کا آخری سال شروع ہونے کو ہے، وہ یہ چاہتے ہیںکہ اگلے سال اگست ستمبر تک امریکی افواج طالبان کے ساتھ کسی آبرومندانہ معاہدے کے ذریعے افغانستان سے نکل جائیں۔ وہ طالبان کے ساتھ معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی خواہش کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ معاہدہ اگلے کچھ دنوں تک طے پا جائے گا۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات بھی سر پر آ پہنچے ہیں۔ اگست ختم ہونے کو ہے، ایسے میں اگر افغان صدارتی الیکشن مقررہ تاریخ پر کروانے ہیں تو اگلے دو ہفتوں میں امریکا طالبان معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
افغانستان میں امن ہر ایک کی دیرینہ خواہش ہے، پاکستان کے لیے افغانستان میں امن بہت اہمیت کا حامل ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کے ساتھ ہماری تجارت ممکن ہو سکتی ہے۔
افغانستان میں امن ہو جانے سے ہم اپنی بہادر افواج مغربی سرحد سے واپس لا سکتے ہیں گو کہ پاکستان اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ افغانستان میںامن اورخاص کر ایک ایسی حکومت کی شکل میںجس میں افغان طالبان مضبوط پوزیشن میں ہوں بھارت کا کردار محدود کیا جا سکتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا سے کیا واقعی افغانستان کے اندر امن قائم ہو جائے گا۔ اس کا جواب بڑی حد تک نفی میں ہے۔
ملک کی معیشت کمزور ہو تو وطن کے ساتھ محبت میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں معیشت مضبوط ہو تودفاع مضبوط ہوتا ہے۔ امریکا دنیا کا شاید سب سے زیادہ Hetrogeneousملک ہے، وہاں ایک ہی گلی میں مختلف لسانی گروہ اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ اپنے آپ کو امریکی کہلاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں افغانستان کے اندر چند قومیتیں اور چند لسانی گروہ ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک گروہ بھی دوسرے گروہ سے جڑ کر نہیں رہنا چاہتا، یہ لسانی اور علاقائی تقسیم اتنی گہری ہے کہ اگر امریکا کو اسی حالت میں افغانستان سے نکلنے میں مدد دی گئی تو ڈر ہے کہ اگلی کئی دہائیوں تک افغانستان تو غیر مستحکم اور خلفشار کا شکار رہے گا۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر یورپ پر اندھیرے مسلط ہو چکے تھے، بمباری سے تمام بڑے شہر اور صنعت و حرفت کے ادارے ملیامیٹ ہو چکے تھے۔ تجارت بڑی حد تک ختم ہو چکی تھی۔ دور دراز قصبے اور گاؤں شاید تباہی سے اتنے متاثر نہ ہوئے ہوں لیکن ٹرانسپورٹ نیٹ ورک تباہ ہونے سے یہ قصبے اور گاؤں کٹ کر رہ گئے تھے۔
کئی ملین لوگ مہاجر کیمپوں میں بیرونی امداد کی آس میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ 1946 کا موسمِ سرمابہت شدید تھا۔ اکثر بحری تجارتی جہاز ڈبو دیے گئے تھے۔ امریکا وہ واحد ملک تھا جو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا تھا۔ بحرِاوقیانوس کے دوسری طرف ہونے کی وجہ سے امریکی زمین پر کوئی حملہ نہیں ہوا تھا اس لیے اس کی صنعت و حرفت نہ صرف بچ گئی تھی بلکہ جنگی ضروریات کے پیشِ نظر بہت ترقی بھی کر گئی تھی۔
امریکی جنرل جاج مارشل نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک خطاب کے دوران یہ تجویز دی کہ تباہ حال یورپ کو از سرِنو تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے۔ اس تجویز کو پذیرائی ملی اور جنرل مارشل کے نام پر ایک امریکی منصوبہ منظور کر لیا گیا۔ اس منصوبے پر اپریل 1948 میں کام شروع ہوا اور یہ چار سال جاری رہا، اس وقت بارہ بلین امریکی ڈالر ( جو آجکل کے وقت میں ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ رقم بنتی ہے) اس منصوبے کے لیے مختص کیے گئے۔ امریکا اور یورپ کے درمیان ایک ہوائی پل بنایا گیا، یوں مارشل پلان کے ذریعے مغربی یورپ کو تعمیر و ترقی میں مدد دی گئی۔
امریکا اندازاً سالانہ پینتا لیس ارب ڈالر افغان جنگ میں جھونک رہا ہے لیکن اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان کو موت اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ افغانستان کے اندر کوئی چیز سلامت نہیں رہی، کوئی سڑک کوئی پل ایسا نہیں جو کہ اس جنگ سے متاثر نہ ہوا ہو، ابھی پچھلے دنوں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد سب سے مہلک بم امریکا نے افغانستان میں استعمال کیے ہیں، افغانستان میں جنگ کی کی ہولناکیوں اور تباہی کا صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد اور کون سا ثبوت چاہیے۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا نے جو تباہی پھیلائی ہے اس کے لیے وہ اپنے جرم کی پاداش میںافغانستان اور پاکستان کومعاوضہ ادا کرے اور یہ یقینی بنائے کہ افغانستان کی اسی طرح تعمیرِنو کی جائے گی جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ ریکوری پلان کے تحت یورپ کو تعمیر و ترقی کے راستے پر ڈالا گیاتھا۔
اس سے پہلے سوویت یونین یعنی روس نے افغانستان کو مکمل تباہی سے دوچار کیا لیکن اس کو بغیر کسی ریکوری پلان یونہی افغانستاں سے نکل جانے دیا گیا حالانکہ جنیوا امن معاہدے کے موقع پر یہی کہا جا رہاتھا کہ روس جس نے فوج بھیج کر افغانستان کو تباہی سے دوچار کیا ہے اور امریکا جس نے موقع دیکھ کر روس کے خلاف جنگ لڑی ہے اور اسے تباہی سے دوچار کیا ہے دونوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ افغانستان کی بحالی اور تعمیرو ترقی کی ضمانت دیے بغیر وہاں سے نہ نکل سکیں، بعد میں افغان خانہ جنگی نے ثابت کیا کہ ریکوری منصوبہ افغان امن کے لیے ضروری تھا۔ اب ایک بار پھر امریکا افغانستان سے جلد نکلنا چاہتا ہے اور ریکوری پلان مانگنے کے لیے سنہری موقع ہے۔
22اگست 2019 کو دوحہ میںشروع ہونے والے امریکا طالبان مذاکرا ت کا یہ نواں اور بظاہر حتمی دور ہے۔ اس دور کے پانچویں دن ایک افغان کمانڈر نے بتایا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے متعلق مذاکرات اگلے چند دنوں میں طے پا جائیں گے تاہم معاہدہ ہو جانے پر بھی اشرف غنی کی کابل حکومت پر حملے جاری رہیں گے،
افغان کمانڈر نے مزید بتایا کہ امریکا اور طالبان کا ایک دوسرے پر حملے نہ کرنا طے پا گیا ہے تاہم افغان حکومت سے جنگ بندی جیسی کوئی بات زیرِ بحث نہیں۔ کابل حکومت کے ساتھ جنگ جاری رہے گی اور جنگ کے ذریعے ہی طاقت و اقتدار حاصل کریں گے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ تمام نکات پر اتفاق ہو چکا ہے تاہم امریکا چاہتا ہے کہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بھی جنگ بندی پر آمادہ کر لیںلیکن طالبان اس پر رضا مند نہیں اور اسی وجہ سے مذاکرات طول پکڑ گئے ہیں۔
پاکستان کو اس وقت بہت ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہیے اور امریکا کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ افغانستان اور ہمارے قبائلی علاقوں کی دوبارہ بحالی اور تعمیر و ترقی کے لیے مارشل پلان کی طرز پر ایک پانچ سالہ پروگرام کی ضمانت دیں اور ساتھ ہی یہ یقینی بنائے کہ افغانستان کے اندر تمام دھڑے حکومت کا حصہ بنیں۔
یاد رہے اگر امریکا کسی امدادی پلان کے بغیر افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہو گیاتو امریکا اور طالبان تو جیت جائیں گے مگر افغانستان ایک دفعہ پھر خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا جو پاکستان کے لیے ایک خوفناک بھیانک خواب ہو گا۔