Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kon Banega Agla Sadar?

Kon Banega Agla Sadar?

3نومبر2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کو محض 18 دن باقی ہیں۔ ساری دنیا میں لگ بھگ دو سو کے قریب ممالک ہیں اور آئے دن کہیں نہ کہیں انتخابات کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے پھر امریکی انتخابات کیوں اہم ہیں۔

امریکی انتخابات اس لیے بہت اہم ہیں کیونکہ سپر پاور ہونے کے ناطے امریکا کو جو سیاسی، سفارتی اور فوجی قوت حاصل ہے وہ کسی اور ملک کو نہیں۔ یہ بات بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ امریکی قیادت ساری دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ امریکا کے اندر تو امریکی صدر بہت اہم ہوتا ہی ہے لیکن امریکا سے باہر اس کے ایک اشارے پر اربوں ڈالر کے سودے ہو جاتے ہیں۔

امریکی ڈالر کی ساکھ اور قدر سے باقی ممالک کی کرنسیاں اپنی قدر میں گھٹتی یا بڑھتی ہیں۔ ساری دنیا میں تیل کے نرخ ڈالر میں طے ہوتے ہیں۔ غریب اور مفلوک الحال ممالک کے لیے تو امریکا بہت ہی اہم ملک ہے اس لیے واشنگٹن ڈی سی میں قیادت کی تبدیلی ساری دنیا کو متاثر کرتی ہے۔

نومبر 2020کے امریکی صدارتی الیکشن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بارک اوباما کے ساتھ سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے موجودہ نائب صدر مائیک پنس کو ہی اگلی ٹرم کے لیے ساتھ رکھا ہے جب کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کمیلا حارث کو اس عہدے کے لیے چنا ہے۔ یہ بہت ہی اہم فیصلہ ہے۔ کمیلا حارث پہلی افریقن امریکن، پہلی بھارتی امریکن اور پہلی ایشیائی امریکن خاتون ہیں جو اس عہدے کے لیے نامزد کی گئی ہیں۔ کمیلا میں بلا کی خود اعتمادی ہے۔

وہ پہلی دفعہ امریکی سینیٹ میں آئی ہیں اس لیے بین الاقوامی امور میں تجربہ اتنا نہیں لیکن بارک اوباما بھی صرف ایک ٹرم سینیٹ میں گزارنے کے بعد صدارتی امیدوار نامزد ہو گئے تھے۔ امریکی رائے دہندگان کا تیس فی صد غیر سفید فام ووٹر ہیں کمیلا حارث غیر سفید فام ووٹروں کو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف مائل کر سکتی ہیں۔

لیکن یہ گیم الٹی بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ سفید فام امریکی ووٹر اس سے خار بھی کھا سکتے ہیں۔ موجودہ صدارتی الیکشن صدر ٹرمپ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنتے جا رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے تمام سروے رپورٹوں میں جو بائیڈن صدر ٹرمپ سے کم و بیش 10پوائنٹس سے آگے ہیں۔ یہ صورتحال ٹرمپ کے لیے بہت پریشان کن اور نا قابلِ قبول ہے۔ الیکشن سے صرف دو ڈھائی ہفتے پہلے جو بائیڈن کی اتنی Leadلیِڈ خاصی لیڈ ہے اور ٹرمپ کے لیے اس کو پاٹنا نا ممکن اگر نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔

ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں خاصے معمر امیدوار ہیں۔ ٹرمپ 74کے ہو چکے ہیں جب کہ جو بائیڈن ٹرمپ سے بھی چار سال بڑے ہیں۔ اس سے پہلے سابق مرحوم صدر رونلڈ ریگن خاصی عمر کے تھے۔ ٹرمپ اپنے آپ کو تو بوڑھا نہیں گردانتے البتہ پچھلے ہفتے کے دن انھوں نے جو بائیڈن پر پھبتی کسی اور انھیں قریب المرگ قرار دیا۔ ٹرمپ نے جو بائیڈن کے انتخاب کی صورت میں انھیں تین ماہ کے اندر موت کا مژدہ سنایا۔ عمر کے لحاظ سے دونوں کسی وقت اگلی دنیا کو سدھار سکتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ کمیلا حارث تین مہینے بعد صدر بن جائیں گی ایک گہری چال ہے۔ وہ امریکی عوام کو کمیلا حارث جو کہ افریقن امریکن ہیں ان کے اقتدار سے ڈرا رہے ہیں۔

منگل3نومبر کے الیکشن امریکی تاریخ کے 59ویں الیکشن ہوں گے۔ اٹھارہ سال سے زائد عمر کا ہر امریکی شہری ووٹ دے سکتا ہے جب کہ 35سال یا زائد عمر کا ہر وہ امریکی شہری جس کو امریکا میں رہائش اختیار کیے ہوئے کم از کم 14سال ہو گئے ہوں وہ صدارتی امیدوار بن سکتا ہے۔ پہلے یہ الیکشن ریاستی سطح پر الیکٹورل کالج کے لیے ہوتے ہیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر زیادہ ووٹ لے کر بھی کم الیکٹورل ووٹ کی وجہ سے ہار جائے جیسا کہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ہوا۔

ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے لیے ری پبلکن امیدوار ہیں۔ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے لیے نامزدگی آسان رہی۔ جو بائیڈن کے لیے ان کے مدِ مقابل برنی سینڈرز بہت ٹف مدِ مقابل ثابت ہوئے لیکن آخر کار جو بائیڈن نے میدان مار لیا اور وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے ٹرمپ کے لیے یہ انتخابات ایک ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔ وہ قومی سطح پر اور swing statesدونوں محاذوں پر جو بائیڈن سے دس پوائنٹس پیچھے ہیں۔ ان کا جو بائیڈن کے ساتھ پہلا مذاکرہ بھی ٹھیک نہیں گیا اور ان پر شدید تنقید ہوئی۔ اس لیے اگر ٹرمپ نے یہ انتخابات جیتنے ہیں تو انھیں اگلے دو ڈھائی ہفتوں میں بہت محنت کرنی ہو گی۔ بظاہر یہ بہت بڑا ٹاسک ہے لیکن ٹرمپ، ٹرمپ ہے۔ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

اب تک کے تمام سروے اور اندازے بتا رہے ہیں کہ امریکن سفید فام مرد رائے دہندگان ٹرمپ کے حامی ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں حالانکہ ٹرمپ کی بحیثیت صدر کارکردگی ہر حوالے سے اچھی نہیں رہی ہے۔ ٹرمپ کے دور میں کورونا کی وبا پھوٹی۔ ٹرمپ کی وبا سے نبٹنے کی پالیسی کو ہر ایک نے تنقید کی نظر سے دیکھا ہے۔

پچھلے چند مہینوں سے روزانہ ایک ہزار سے زیادہ امریکی اس وبا سے مر رہے ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق اب تک کوئی ایک لاکھ ستر ہزار امریکی جان سے جا چکے ہیں۔ معاشی میدان میں امریکا برے حالات سے دوچار ہے۔ بے روزگاری ڈبل ڈیجٹ میں جا رہی ہے۔ Recessionکی فضا ہے۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکیوں کو معاشی کساد بازاری کا سامنا ہو گا۔ ٹرمپ کی فارن پالیسی ناکام گردانی جا رہی ہے خاص کر ایران، شمالی کوریا اور چین کے معاملے میں امریکا کو خفت کا سامنا ہے۔ لیکن ان تمام ناکامیوں کے باوجود سفید فام مرد ووٹر ٹرمپ کے طرف دار ہیں۔

اب ہم سب سے اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ کون بنے گا صدر ِ امریکا۔ کیا ٹرمپ جو اس وقت اپنے مدِ مقابل سابق نائب صدر جوبائیڈن سے 10پوائنٹس پیچھے ہیں، جو بائیڈن کو ہرا کر دوبارہ صدر بن پائیں گے۔ جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے یہ ناممکن ہر گز نہیں۔ پچھلے الیکشن میں بھی تو تمام اندازوں کے برعکس ٹرمپ جیت گئے۔ 1936سے لے کر تمام صدارتی الیکشنوں میں Opinion Polls اور آخری نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ 12 پوائنٹس کا فرق رہا ہے۔ جو بائیڈن کی لیڈ اس کے اندر اندر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 20میں سے ایک چانس ایسا ہے کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر سب کو حیران کر کے جیت جائیں۔

ٹرمپ کے جیتنے کی ایک اور صورت یہ ہے کہ چھ Swing Statesٹرمپ کے پلڑے میں اپنا ووٹ ڈال دیں۔ اس دفعہ مشی گن، وسکاسن، پنسلوینیا، ایری زونا، فلوریڈا اور نارتھ کیرولینا ایسی ریاستیں ہیں کہ ان میں سے تین سے چار جس کے حق میں ووٹ کر گئیں وہ جیت جائے گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ فلوریڈا کی ریاست کے ووٹر ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ہیں۔ مشی گن عام طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ کرتی رہی ہے لیکن 2016ء میں صرف چند ہزار کے فرق سے ٹرمپ یہاں سے جیت گئے تھے۔

جو بائیڈن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشی گن کو واپس لیں۔ ایری زونا عام طور پر ریپبلکن کے ساتھ جاتی رہی ہے لیکن اب کی بار ابھی تک جوبائیڈن کو 2.7پوائنٹس کی لیڈ ہے۔ اگر نتیجہ سروے رپورٹوں کے مطابق رہا تو جو بائیڈن الیکٹورل کالج کی538میں سے 318ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکنIn the real world، the seemingly unlikely things do happen.۔ اس دفعہ صرف صدر کے لیے ووٹ نہیں ڈالے جا رہے بلکہ ایوانِ نمایندگان کی تمام 435نشستوں اور سینیٹ کی33نشستوں کے لیے بھی ساتھ ہی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس لیے یہ بہت بڑا انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے جو ساری دنیا کو متاثر کرے گا۔