Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. William Shakespeare

William Shakespeare

دنیا کے تمام ادباء اور شعراء میں سے اگر کوئی شاعر عالمی سطح پر سب سے زیادہ جانا اور پہچانا جاتا ہے تو وہ شیکسپیئر ہے۔ ڈاکٹر جانسن نے ولیم شیکسپیئر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ He was not for age، but for all time.وہ کسی ایک دور کے لیے نہیں بلکہ تمام ادوار کے لیے ہے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا شخص ہو جس نے شیکسپیئر کا نام نہ سنا ہو۔ شیکسپیئر انگریزی زبان کا وہ واحد شاعر اور ڈرامہ نویس ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے اور جسے ہر جگہ پڑھا جاتا ہے۔ اس کی بڑائی کو سبھی مانتے ہیں۔

بہت بڑے بڑے لکھنے والوں کی رائے میں انسانی زندگی کے دکھ سکھ کا جتنا احاطہ شیکسپیئر نے کیا ہے اتنا کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ دنیا کی تمام لائبریریوں میں اس کے فن پارے رکھے جاتے ہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی لائبریری اس کے فن پاروں خصوصی طور پر اس کے المیہ ڈراموں Tragedies کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہے۔ شیکسپیئرکے ڈراموں پر بے شمار مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ڈراموں پر لکھی جانے والی کتابیں اس کے ڈراموں سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوں گی۔ صرف اس کے ایک ڈرامے ہیملٹ پر 1970 تک دس ہزار سے زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے تھے۔

شیکسپیئر جتنا بڑا شاعر اور ڈرامہ نویس ہے اس کے مقابلے میں اس کی ذاتی زندگی پر بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ وہ جان شیکسپیئر اور میری آرڈن کے گھر اپریل 1564میں پیدا ہوا۔ بالکل صحیح تاریخِ پیدائش کی ابھی تک جان کاری نہیں ہو سکی لیکن اس کی جائے پیدائش stratford- upon avonاسٹریٹفورڈ ایون، جو لندن سے لگ بھگ کوئی ایک سو میل دریائے ایون کے کنارے واقع ایک بستی تھی، کے مقامی گرجا گھر میں 26اپریل 1564کو ولیم شیکسپیئر کا اندراج ہوا۔ اس کی والدہ کی تھوڑی سی زمین تھی اور اس کے والد دستانے بنانے کا کام کرتے تھے۔ یہ دستانے بہت پسند کیے جاتے تھے لیکن ان سے کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی تھی البتہ جان شیکسپیئر مقامی انتظامیہ میں ایک عہدیدار رہے لیکن بعد میں وہ یہ حیثیت کھو بیٹھے۔

شیکسپیئر کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ اسے ڈرامے دیکھنے کا جنون تھا۔ شیکسپیئر کو غالباً 13سال کی ہی عمر میں اسکول سے اُٹھا لیا گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 28نومبر1582کو اس کی شادی 26سالہ این ہیتھ اوےAnn Hath Awayسے ہو گئی۔ وہ اس شادی پر کوئی خاص رضا مند نہیں تھا لیکن این نے کمال ہوشیاری سے ایسے حالات پیدا کر دئے کہ شیکسپیئر کے لیے اس شادی سے اعراض ممکن نہ رہا۔ شیکسپیئر کے گھر تین بچے پیدا ہوئے۔

ڈراموں کے شوق میں شیکسپیئر اپنے گھر سے دور لندن پہنچ گیا۔ وہاں تھیٹر کمپنیوں میں چھوٹے موٹے کام کرتا کرتا کمائی کرنے کے قابل بن گیا۔ 1590 میں وہ لندن کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی لارڈ چیمبرلین کمپنی کا پارٹنر بن گیا یہی کمپنی بعد میں کنگز کمپنی میں تبدیل ہو گئی۔ 1597تک اس کے پاس اتنی آمدنی ہونی شروع ہو گئی تھی کہ اس نے اسٹریٹفورڈ میں نیو ہائوس نامی شہر کا دوسرا بڑا گھر خرید لیا، 1599میں اس نے اپنے ساتھی فنکاروں کے ساتھ مل کر گلوب تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ گلوب تھیٹر بعد میں لندن کا اہم لینڈ مارک بن گیا۔

شیکسپیئر کی زندگی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کی اپنی زندگی میں اس کے ڈرامے چھپ نہ سکے۔ اس کی موت کے چند سالوں بعد اس کے دو اداکار ساتھیوں نے اس کے دو ڈرامے چھپوا کر مارکیٹ میں پہنچائے جہاں سے لوگ اس کے کام سے متعارف ہونے شروع ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ڈرامے ہاتھوں ہاتھ لیے جانے لگے۔

برطانوی فتوحات کے نتیجے میں برطانوی نوآبادیوں کا ہر طرف ایک نیٹ ورک قائم ہو گیا اور ایک وقت ایسا آ گیا کہ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ان فتوحات کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب بھی پھیلا اور شیکسپیئر کی مشہوری کا چار دانگ عالم ڈنکا بجنا شروع ہو گیا۔ اب دنیا کا ہر آدمی شیکسپیئر کو اپنے اندر کے حال کا نمایندہ ترجمان سمجھتا ہے۔ اس کی شہرت تمام علاقائی سرحدیں عبور کر چکی ہے، وہ بین الاقوامی سچائیوں کا نمایندہ ڈرامہ نویس بن گیا ہے۔ برطانیہ میں تو اسے قومی شاعر کی سی حیثیت حاصل ہے۔

شیکسپیئر کی شاعری نے اس کے ڈراموں کو بے انتہا حسن بخشا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ کرسٹوفرمارلو Christopher Marlowe اپنے مشہور ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس Doctor Faustusمیں بلینک ورس Blank Verseکا کامیابی سے استعمال کر چکا تھا۔ بلینک ورس شاعری کی ایک بہت عمدہ اور طاقتور صنف کے طور پر ابھری جس نے شاعر کو اظہار کے لیے بہت گنجائش فراہم کی، شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں میں بلینک ورس کا اتنی خوبصورتی سے استعمال کیا کہ اس صنف کو چار چاند لگا دیے۔ ٹی ایس ایلیٹ کا خیال ہے کہ اپنی خوبصورت شاعرانہ خصوصیات کی بدولت شیکسپیئر جارج برنارڈ شا اور اِبسِن سے بہت بڑا ڈرامہ نویس ہے۔

ڈاکٹر جانسن کی طرح ٹی ایس ایلیٹ کا بھی خیال ہے کہ وہ ایک عہد سے وابستہ نہیں بلکہ تمام ادوار کا بڑا ڈرامہ نویس ہے۔ شیکسپیئر کواُس وقت بڑی کامیابی ملی جب 1603میں اس نے اپنا نام اداکاروں کی اس فہرست میں درج کروالیا جو بادشاہ جیمز اول کے منظورِ نظر تھے۔ شیکسپیئر اپنی بستی کو کبھی نہیں بھُولا۔ 1597میں بستی کا دوسرا سب سے بڑا گھر خریدا اور پھر 1604 کے لگ بھگ لندن سے واپس اسٹریٹفورڈ آ گیا جہاں 25اپریل 1616کو مختصر سی علالت کے بعد فوت ہو کر ٹرینٹی چرچ میں دفن ہوا، وہ اپریل میں پیدا ہوا اور اپریل ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس نے اپنی جائیداد کا زیادہ تر حصہ بیٹی سوسان کے نام کیا۔

شیکسپیئر نے کُل37 ڈرامے لکھے۔ اس کے ڈراموں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے المیہ ڈراموں میں سے کنگ لیئر، ہیملٹ، میکبتھ اور اوتھیلو، کامیڈی ڈراموں میں سے ٹویلتھ نائٹ، مرچنٹ آف وینس، ٹیمنگ آف شریو، کامیڈی آف ایررز اور تاریخی ڈراموں میں سے رچرڈ 3، ہنری ہشتم، جولیس سیزر اور انٹونی اینڈ قلوپطرہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ شیکسپیئر کا ہر ڈرامہ کامیڈی ہو کہ ٹریجیڈی انسانی جذبات کی ایک روداد ہے، اس کی سیکڑوں لائنیں زبان زدِ عام بن چکی ہیں چند لائنیں دیکھیں، The time is out of joint.Empty vessels make much noise.Nothing will come out of nothing.Brevity is the soul of wit.Music is the food of love. To be or not to be.

شیکسپیئر کے تقریباً تمام ہی ڈراموں میں پلاٹ کو وہ اہمیت نہیں جتنی اہمیت کرداروں کو حاصل ہوئی۔ اس کے کردار جیسے کنگ لیئر، ہیملٹ، لیڈی میکبتھ ہمارے ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔

شیکسپیئر نے اپنے لازوال ڈراموں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں جو سانٹsonnetکی فارم میں ہیں۔ شیکسپیئر کی سانٹ چودہ لائنوں چار، چار، چار اور دو لائنوں پر مشتمل ہے۔ شیکسپیئر نے کل 154 ایسی نظمیں لکھیں۔ پہلی ایک سو پچیس سانٹ نظمیں fair youthکی محبت میں ہیں جب کہ 126 سے 152تک ڈارک لیڈی آف سانٹ سے مخاطب ہیں۔ آخری دونوں سانٹ محبت کے دیوتا کیوپڈ کے لیے ہیں۔

شیکسپیئر انسان کی زندگی کو اپنے ڈراموں کا موضوع بناتا ہے یوں وہ خالص ادب تخلیق کرتا ہے کیونکہ ادب زندگی سے ہی متعلق ہے۔ شیکسپیئر ڈرامہ لکھتے ہوئے کرداروں پر اپنے فیصلے صادر نہیں کرتا۔ نہ تو اُس نے کوئی اصلاحی تحریک چلائی اور نہ ہی وہ مبلغ کے رُوپ میں سامنے آیا۔ وہ تو اپنے کرداروں کو خوش ہوتے، دُکھ سہتے، ہنستے گاتے اور روتے دکھاتا ہے۔ نہ ان کی حماقتوں پر ہنستا ہے اور نہ ہی ان کے جرم کو اچھالتا ہے۔ وہ انسانوں کو ان کی برائیوں، دغابازیوں اور کمینگیوں کے باوصف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں وہ زندگی کے حسن اور بدصورتی کو نمایاں کرتا ہے، وہ زندگی کا ڈرامہ نویس ہے۔