وطن سے محبت اور اس کادفاعِ ایک فطری تقاضا ہے اور اگر وطن ایسا ہو جس کو لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ہو، جس کے باسیوں نے یہ قرار دیا ہو کہ ہم یہ ملک اس لیے حاصل کر رہے ہیں تا کہ یہاں اپنے عقائد اور امنگوں کے مطابق اپنی آزاد مرضی سے اپنی زندگیاں تشکیل دے سکیں تو دفاعِ وطن کا یہی جذبہ ایک مذہبی فریضہ بن جاتا ہے۔ ذرا تصور کریں اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
کس طرح ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے کشمیری بھائی اور بہنیں کس اذیت سے دوچار ہیں۔ ان کا جرم کیا ہے یہی نا کہ وہ دینِ اسلام کے پیرو کار ہیں۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندو اکثریت اپنے مسلح جتھوں اور نفرت انگیز قوانین کے ذریعے ہمیں کیسی حالت میں دھکیل دیتی۔ اس لیے ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کے دفاع میں ہی ہمارا آزاد اور تابناک مستقبل پنہاں ہے۔
یومِ دفاعِ پاکستان ہمیں لازوال عزم و ہمت کی یاد دلاتا ہے۔ پوری قوم یک جان ہو کر وطن کے دفاع کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ یہ دن ہمارے ملی اتحاد و یکجہتی کا بہترین عکاس ہے۔ دشمن کے ساتھ عسکری معرکے ہوں یا پچھلے بیس بائیس سال کے دوران دہشتگردی کا کٹھن اور صبرآزما مرحلہ، ہماری پرجوش مسلح افواج اور پر عزم قوم نے جو قربانیاں دی ہیں ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں اور اپنے پاک لہو سے مادرِ وطن کی حفاظت کرنے والوں کو یاد بھی رکھیں، سلامِ عقیدت پیش کریں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو رہیں۔
ہماری مسلح افواج کا یہ جذبۂ شجاعت ہی تھا جس نے پاکستانی قوم کے ساتھ مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے اور جدید اسلحے سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو پیوندِ خاک کر دیا۔ یہ ایک حیران کن معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال داستانیں رقم ہوئیں۔
پوری دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ پاکستانی قوم اور اس کی مسلح افواج نے دشمن کے ناپاک ارادوں کو روند ڈالا ہے۔ ساری دنیا حیران تھی کہ یہ کس قسم کی قوم ہے جس کے رینجر دستوں نے بھارت کے پورے پچیسویں ڈویژن جس کو جدید ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کی مدد حاصل ہے اس کے حملے کو رینجرز کے چھوٹے سے دستے نے روک لیا، نہ کوئی پیچھے ہٹا اور نہ کسی نے ہتھیار ڈالے۔ راجستھان کے محاذ پر بھی ہماری رینجرز نے دشمن کے حملے کو کئی گھنٹے روکے رکھا۔
اس معرکے میں سندھ کے مجاہدین بھی مادرِ وطن کے دفاع میں اپنی مسلح افواج کے دست و بازو بن گئے۔ ستمبر 1965 کی جنگ میں ہماری مسلح افواج نے ہر محاذ اور ہر شعبے میں دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ اس جنگ میں نوجوان افسروں کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ انھوں نے اپنی بے مثال قربانیوں سے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔ جوانوں کے مقابلے میں ہمارے ان نوجوان افسروں کی شہادت کا تناسب بہت اونچا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے افسر سینہ تان کر اپنے دستوں کی قیادت کرتے ہیں۔
چھ ستمبر سے پہلے ہی ہماری بہترین فضائیہ نے اپنی شاندار کارکردگی سے قوم کے دل موہ لیے تھے۔ چھمب کے محاذ پر پہلی دفعہ بھارتی فضائیہ کا پاکستانی عقابوں سے آمنا سامنا ہوا اور پلک جھپکتے میں دشمن کے چار جدید ویمپائر لڑاکا طیارے کھیت ہو گئے۔ پاکستانی فضائیہ نے اپنی زمینی افواج کی بھی بے پناہ مدد کی۔ پاکستان کے ایک اسٹار فائٹر نے دشمن کا ایک جنگی طیارہ پسرور ہوائی مستقر پر اتار کر بھارتی اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ لاہور پر بھارتی حملے کے دن ہمارے ہوا بازوں نے بھارتی دستوں اورٹینکوں کی خوب خبر لی اور دشمن پر بموں، راکٹوں اور گولیوں کی برسات کرتے رہے۔
پٹھان کوٹ کے بھارتی ہوائی اڈے کو تقریباً ناکارہ بنا دیا۔ ہمارے بہادر ہواباز سجاد حیدر نے نہایت نیچی پرواز کرتے ہوئے دشمن کے بارہ جنگی جہاز اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دیے۔
فضائی معرکے کا ایک حیرت انگیز لمحہ وہ تھا جب ہمارے نابغۂ روزگار پائلٹ محمد محمود عالم نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ طیارے مار گرائے اور فضائی معرکوں کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس کے بعد بھارتی فضائیہ کو ہمارے سرگودھا ایئر بیس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ سترہ روزہ جنگ میں پاکستان کی عظیم فضائیہ نے بھارتی ایئر فورس کے 35طیاروں کو فضا میں، 43طیاروں کو زمین پر کھڑے کھڑے تباہ کر دیا اس کے علاوہ 32طیاروں کو ہماری طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔ ہماری فضائیہ نے دشمن کے بڑھتے ٹینکوں اور آگ اگلتی توپوں کا جو حشر کیا وہ بیان سے باہر ہے۔ پاکستان فضائیہ کے کل 19طیارے اس جنگ میں کام آئے۔
قیامِ پاکستان سے لے کر 1965 تک پاک بحریہ نے شبانہ روز محنت، لگن اور تربیت کے اعلیٰ معیار سے اپنے آپ کو ایک بحری قوت کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔ جدید سازو سامان کے حصول کے ساتھ پاک بحریہ نے اپنی سپاہ کی تربیت پر بھرپور توجہ مرکوز کی۔ 1964 میں پہلی آبدوز غازی کی شمولیت سے ہمارا بحری دفاع بہت بہتر ہو گیا۔ ستمبر 1965 کی جنگ میں ہماری بحری افواج کے سامنے کئی مشن تھے لیکن ان میں سے سمندری سرحدوں کی حفاظت اور بین الاقوامی تجارتی راستوں اور سپلائی لائن کا کھلا رکھنا بہت اہم تھے۔
پاکستان بحریہ نے بھارتی بحری جہازوں کا سمندر میں انتظار کرنے کے بجائے للکارنے کا فیصلہ کیا اور غازی آبدوز کو کراچی سے چٹاگانگ کے ساحل تک نگرانی کرنے کی ذمے واری سونپ دی۔ اس حکمت عملی سے بھارتی بحریہ نے اپنے طیارہ بردار جہاز وکرانت کو جزائر انڈیمان منتقل کر دیا۔ غازی کی جارحانہ سرگرمیوں کی بدولت بھارتی بحریہ کھلے سمندر میں نکلنے کی جرات ہی نہ کر سکی۔ کراچی کو بھارتی فضائیہ کے حملوں کا سامنا تھا۔
پاکستان بحریہ کو اطلاع ہوئی کہ بھارت نے دوارکا کے ساحل پر ایک راڈار اسٹیشن قائم کر رکھا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی پاک بحریہ نے اسے نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنایا جو کراچی سے دو سو سمندری میل دور تھا۔ پاک بحریہ کے سات جنگی جہازوں نے دشمن کو اطلاع ہوئے بغیر دوارکا پہنچ کر رات بارہ بجکر چھبیس منٹ پر حملہ کیا اور دوارکا کا راڈار اسٹیشن اور بحری ہوائی اڈہ تباہ کر کے کراچی پر بھارتی ہوائی حملوں کا سدِباب کر دیا۔ ہماری بحریہ اپنے مشن میں سرخرو ہوئی۔
ستمبر1965 کا جنگی معرکہ ہماری نوزائیدہ مملکت کے لیے بقا کی جنگ تھی اس لیے ہر شعبہء زندگی کے افراد نے کمال یکجہتی اور عظیم الشان جذبے کے ساتھ اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ یہ جنگ لڑی۔ عوام اپنی مسلح افواج پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔
لاہور کے عوام کو جب جنگ کی اطلاع ملی تو ضروریات زندگی لے کر سرحدوں کی جانب لپکے۔ بوڑھے اور خواتین سڑک کنارے کھڑے اپنے جان نثاروں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے۔ شاعر ملی گیت لکھتے، موسیقار دھنیں ترتیب دیتے اور گلوکار اپنی آواز دے کر لہو گرماتے۔ پورا ملک جنگ میں شامل تھا۔ نہ خوف اور نہ ہی دشمن کی عددی برتری سے مرعوب۔ ریڈیو اور اخبارات آگاہی کے ساتھ قوم کا حوصلہ بڑھاتے، ایسے لگتا تھا قوم کا ہر فرد ایک آہنی دیوار بن چکا ہے۔
جدید اسلحہ، بہترین تربیت اور وار گیمز، اچھی صلاحیت کی حامل وار مشین یعنی فوج تشکیل دیتی ہیں، جنگیں قومیں لڑتی ہیں۔ ایک بہترین فوج قوم کے ہاتھ میں ایک اہم ہتھیار ہوتا ہے۔
1965 کی جنگ کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ کوئی ملک قوم کی حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتا۔ لیکن قومی جذبے کے ساتھ ساتھ مضبوط دفاعی صلاحیت بہت ضروری ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس وقت مضبوط دفاعی صلاحیت بھی موجود ہے اور جنگی ساز و سامان بھی میسر ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ نے پاکستانی مسلح افواج کو Battle Hardenedبنا دیا ہے۔
پاکستان کو بیرونی دشمن کے علاوہ اندرونی محاذ پر چیلنجز درپیش ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہماری روبہ زوال معیشت کا ہے اور اس کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مضبوط معیشت ہی بہترین وار مشین مہیا کر سکتی ہے اور سفارت کاری کا موقع میسر کرتی ہے۔