ہم اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو حسرت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ کاش فلاں موقعے پر عدلیہ کو نظریہ ضرورت لاحق نہ ہوتا تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی اور یہ اس لیے کہتے ہیں کہ ہماری آخری پناہ گاہ عدلیہ ہی ہے کل اور آج اور آیندہ بھی یہی عدلیہ ہماری قومی پناہ گاہ تھی اور رہے گی۔ انصاف کے بغیر ہم کہاں جائیں عدلیہ جیسے غیر معمولی اور انتہائی محترم ادارے کی خدمت میں کچھ عرض کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔
برسوں قبل جب اخبار میں رپورٹنگ شروع کی تھی تو استاد نے دو نصیحتیں کی تھیں ایک فوج کی خبر نہ دینا جو اوپر سے فوج خود جاری کرے بس وہی کچھ چھاپ دینا دوسرے عدلیہ کی رپورٹنگ میں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا اور عدلیہ کے ججوں کے بارے میں تو خبر دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اب تک ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ جب فوج کے متعلق عدالت میں کوئی قانونی نقطہ زیر بحث ہو تو اخبار نویسوں کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ اس پر محتاط الفاظ میں اپنا تجزیہ دیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور نہ ہی لکھیں جو دونوں اداروں کو متاثر کرے مختصر الفاظ میں یہ عرض کرنا ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی تبصرہ نہ کریں۔
پوری قوم کے دانشوروں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ملک کو زندہ رکھنے اور اس میں استحکام لانے کے لیے دو ادارے بنیادی اور لازمی حیثیت رکھتے ہیں ایک مکمل آزاد الیکشن کمیشن اور اتنا ہی اہم ادارہ عدلیہ۔ اگر یہ دو ادارے آزاد ہوں اور ہر دباؤ سے محفوظ ہوں اور ان کے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی جائے کہ یہ اپنی آزادی کا تحفظ کر سکیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ملک ایک آزاد خودمختار اور باوقار قوم کا ملک ہے۔
کسی ووٹر کو یہ یقین کہ اس کا ووٹ ضایع نہیں جائے گا اس کو کسی صندوقچی میں بدلا نہیں جائے گا اور ایک شہری کو یہ یقین کہ جب وہ عدالت کے دروازے پر دستک دے گا تو اس کی سنی جائے گی اور عدلیہ اسے اس کا حق دلا کر رہے گی۔ جس قوم کو یہ دو نعمتیں میسر ہوں اس کی طاقت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ عدلیہ کا کردار یوں الیکشن کمیشن سے برتر ہو جاتاہے کہ اس کی شکایت بھی عدلیہ ہی سن سکتی ہے گویا ایک عام شہری کا خدا کی زمین پر انصاف کا واحد مقام عدالت کا کٹہرا ہے۔ اسی انصاف کے قیام کے لیے پیغمبر معبوث ہوئے اور اسی انصاف کا وعدہ خدا نے اپنے بندوں سے کیا۔
قیامت کے روز بھی سزا جزا کے لیے عدالت لگے گی اور گواہیوں سے فیصلہ ہو گا ورنہ اﷲ تبارک تعالیٰ دلوں تک کے بھید جاننے والی ذات کو کسی کی گواہی کی کیا ضرورت ہے۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں تباہ اس لیے ہوئیں کہ ان کے ہاں بڑوں اور چھوٹوں کے لیے الگ الگ قانون اور عدالتیں تھیں۔
ایک عام پاکستانی کو جب کسی زبردست کی طرف سے کوئی دکھ پہنچتا ہے یا کوئی اس کا حق چھین لیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں عدالت میں مقدمہ دائر کردوں گا۔ عدالت اس کا آخری سہارا ہوتا ہے اور اگر عدالت آزاد نہ ہو تو پھر کوئی مظلوم کہاں جائے۔ کیا ظالم حکمران کے دروازے پر دستک دے یا اپنی جان حالات کے حوالے کر دے۔
نہایت ہی محترم بلکہ مقدس عدلیہ کے بارے میں یہ باتیں چیف جسٹس آف پاکستان محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے حکومت پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت کے بارے جاری کردہ احکامات میں سقم کی نشاندہی پر عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقعے پر یاد آئیں۔ انھوں نے بجا طور پر درست ارشاد فرمایا کہ اگر ماضی میں غلطیاں ہوتی رہی ہیں تو آیندہ کے لیے ان غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور حکومت کوعدلیہ کی جانب سے مقرر کردہ وقت میں قانون میں ترمیم کرنی ہوگی۔
بنیادی بات یہ ہے کہ قومی پارلیمنٹ کا مقصد ہی قانون بناناہے اور کسی قانون میں کوئی سقم رہ گیا ہے تو یہ پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کو دور کرے۔ قومی پارلیمنٹ تنازعات کا حل تلاش کرے اور تنازعات کو حل کرے کہ عوام میں قوانین کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے اور عدلیہ کومختلف کیسوں میں قانون کی تشریح نہ کرنی پڑے۔ پارلیمنٹ ملک کی ساری آبادی کی نمایندہ ہے اور یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی دلچسپی اور خواہشات کے مطابق تمام قومی تنازعات کو حل کرے۔ اس بات کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری اداروں کو تحفظ دیے بغیر ملک میں جمہوریت کا دعویٰ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ عدلیہ اور اس سے منسلک بار آئین کی خلاف ورزی کو روک سکتی ہیں۔
جناب چیف جسٹس کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنی عدلیہ کے حالات کا جائزہ لے کر اس کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائیں۔ عدلیہ جیسے ادارے میں بھی ہر طرح کے لوگ موجود ہیں اور یہ سب آسمان سے نہیں اترے۔ یہ خود عدلیہ کے بڑوں کا کام ہے کہ وہ اپنی عدلیہ پر کڑی نظر رکھیں اور کسی کو عدلیہ پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی کسی کی ایسی جرات ہو، حالات ایسے پیدا کیے جائیں کہ عدالتوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے نگاہیں جھک جائیں۔
ہماری پارلیمنٹ کے نمایندہ ارکان کو عدالت عظمیٰ کے تھوڑے کہے کو بہت جاننا چاہیے اور ان کے احکامات کی روح کو سمجھنا چاہیے۔ حکومت پارلیمنٹ سے وجود میں آتی ہے اور یہی وہ ادارہ ہے جہاں قوم کی تقدیر اورمسائل کے فیصلے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اگر مسائل زیر بحث آئیں اور ان کا حل نکالا جائے تو کسی کو عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔