میں ہر روز دس پندرہ اخبارات پڑھنے یا دیکھنے کا پابند ہوں اور یہ میری پیشہ ورانہ مجبوری ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ سرکاری پارٹی کے لیڈر بالعموم خاموش رہتے ہیں جب کہ اپوزیشن میڈیا میں چھائی ہوئی ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی بات سننا پسند کرتے ہیں۔
حکومت کے وزراء کی فوج بشمول مشیران اور معاونین کیا کرتے ہیں یہ کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا اگر حکومت کی جانب سے کوئی بولتا ہے تو وہ اس کی وزارت اطلاعات کی معاون یا چند ایک ایسے وزراء یا مشیر جو پارٹی سے زیادہ اپنے آپ کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لیے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور حکومتی سرگرمیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ میں نے گزشتہ پچپن ساٹھ برس میں ایسے حکمران کم ہی دیکھے ہیں جن کی سیاسی مدد ان کے ساتھی کرتے ہوں چاہے وہ ان کے ٹکٹ پر منتخب ہو کراسمبلیوں میں بیٹھے ہیں یا پارٹی کے کسی عہدے پر فائز ہیں۔ چند جزوقتی وفاداروں کا ایک ٹولہ ہوتا ہے جو ہو ہا کرتے رہتے ہیں۔
ان سب خواتین و حضرات سے زیادہ تو میڈیا کے وہ لوگ ہیں جو حکومت کا دفاع کرتے ہیں اور اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی پارٹی کو زیادہ موزوں سمجھتے ہیں۔ ہر حکومت اپوزیشن کو پورا پورا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اس کے خلاف اپنا ساز وسامان تیار کر لے اور لاؤ لشکر لے کر میدان میں نکل آئے۔ سیاست کا مقابلہ سیاست سے کیا جاتا ہے انتقامی اقدامات سے نہیں بلکہ انتقامی اقدامات تو اپوزیشن کو نئی زندگی دیتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اپوزیشن انتقامی سیاست کے بعد زورشور سے جمہوریت بچانے کا علم بلند کرتی ہے کہ پھر نظریہ ضرورت آڑے آجاتا ہے اور اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہوا ہے۔
پاکستان میں چار اہم سیاسی دور دیکھے گئے ہیں۔ ایوب خان کا دور، بھٹو کا دور، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعد کا سیاسی دور جس میں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کا دور شامل ہے۔ ایوب خان نے کنونشن لیگ بنائی اور آخری وقت تک کنونشن لیگ کے لیڈر اپنی حکومت کے دفاع اور اپوزیشن پر سیاسی حملوں میں مصروف رہے تاآنکہ ایوب خان نے ازخود ہی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بھٹو صاحب کا دور ایک بھر پور سیاسی دور تھا انھوں نے سیاسی کارکنوں کی ایک جاندار کھیپ تیار کی۔ آخری وقت تک یہ لوگ لڑتے بھڑتے رہے اور آج بھی نابالغ سیاسی قیادت کے باوجود ابھی ان میں اتنی ہمت ہے کہ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور پھر سے بر سر اقتدار آنے کی جسارت پر بضد ہیں بددل نہیں ہیں۔
ضیاء الحق مرحوم کی کوئی پارٹی نہیں تھی مگر اس کے باوجود ملک میں سیاستدانوں کی ایک بھاری تعداد ان کا دم بھرتی تھی۔ بھٹو صاحب کی طرح ان کے حامی بھی آج تک سر گرم ہیں۔ اچانک حادثے تک وہ اس ملک میں ایک موثر سیاسی حیثیت کے حامل تھے اور ان کے حامی سیاسی زندگی میں پوری طرح سر گرم رہے، مشرف کو بھی سیاسی پارٹی مل گئی تھی جو ایک مسلم لیگ ہی تھی۔ مسلم لیگ نوازجو تین دفعہ بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی اور بجا طور پر سیاسی عمل کی پیداوار کہلائی لیکن جب بھی اقتدار میں آئی تو اس طرح چت ہوئی کہ عوام یہ کہتے پائے گئے کہ شاید ان کا انتخاب غلط تھا۔
آج کی اگر بات کی جائے تو میرے لیے یہ صورتحال ایک معمہ ہے کہ نواز لیگ کے لیڈر منہ میں زبان بھی رکھتے ہیں یا قوت گویائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ کیا میاں صاحبان نے اپنے ساتھیوں کو بولنے سے منع کر رکھا ہے یا ان کے ساتھیوں نے کسی مجبوری کی وجہ سے بولنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اہم ملکی سلامتی کے معاملات پر اپنا کردارہمیشہ ذمے داری سے نبھایا ہے۔
آرمی ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے موقع پر بھی اپوزیشن نے تقریباً یک زبان ہو کر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے جس پر گو کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے ووٹران سے شاکی ہیں لیکن کچھ ملکی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کو نہ چاہتے ہوئے بھی متفق ہونا پڑتا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ آرمی ایکٹ میں حالیہ ترمیم میں نواز لیگ کا کردار زیر بحث ہے اور تبصرے جاری ہیں چونکہ میاں نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا واضح اور دوٹوک موقف ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہواتھا کہ انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے اس لیے عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے حکومتی پارٹی کی حمایت ہی کرنا تھی تو پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے سے پہلے ہی عزت بچا لینی چاہیے تھی۔
سیاست میں کامیابیاں سمیٹنے والے خوش نصیب نواز شریف کی یہ ایک واحد بد نصیبی ہے کہ آج اس کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے اس کی اپنی پارٹی کے رہنماء کنی کترا رہے ہیں اور وہ مسلم لیگ کے اس سناٹا زدہ صحرا میں تنہا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب کیوں ہوا ہے اس راز سے کسی کو پردہ اٹھانا چاہیے لیکن بقول خواجہ آصف کے لندن میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھنے کاحلف بھی میاں نواز شریف نے ہی لیا ہے جب کہ قبلہ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم تعویذوں سے ہوئی ہے اور یہ تعویذ داتا دربار سے لیے گئے اب یہ تو معلوم نہیں کہ داتا دربار کے تعویذوں نے کام دکھایاہے یا کسی اور دربار کے تعویذوں کا کرشمہ ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر ایک اور میثاق کر لیا ہے وقت بتائے گا کہ وہ اس میثاق کو کیا نام دیتے ہیں۔