ہماری لاڈلی حکومت کو ابھی تک حکومتی امور چلانے کے لیے مفید اور موزوں امیدواروں کی تلاش کا مرحلہ درپیش ہے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک خوش مزاج اور ذہین مہربان نے متعدد لطیفے بذریعہ ٹیلی فون ارسال کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائے۔
یہ مہربان جب ایک بڑے صوبے میں آئی جی پو لیس تھے تو ایک دن ایک ڈی آئی جی ان سے ملنے آیا، اس نے اپنا کارڈ بھیجا۔ انھوں نے اسے فوراً بلا لیا، ڈی آئی جی نے سلام دعا کے بعد کہا کہ سر! آپ مجھے جانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کمال کرتے ہوئے میں اپنے ایک ڈی آئی جی کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ سر آپ مجھے نہیں جانتے، میں اپنا تعارف کراتا ہوں۔
میں ایک ضلع میں حوالدار تھا، ایک بار میں نے ایک مشہور چور گرفتار کر لیا اور مال مسروقہ بھی برآمد کر لیا۔ اس وقت کے انگریز ڈی آئی جی نے مجھے کارکردگی کی سند عنایت کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اپنی پیشی میں طلب بھی کیا۔ میں ہو اکے گھوڑے پر سوار حاضر خدمت ہوا۔ سند وصول کی اور گورے ہاتھوں سے ہاتھ بھی ملائے، اس لمحے نہ جانے میرے ذہن میں یہ بات کیوں آئی کہ میں بھی ڈی آئی جی بن سکتا ہوں اور آج میں آپ کے سامنے بطور ڈی آئی جی حاضر ہوں اور اس میں میرا کوئی کمال نہیں اور میں نے ترقی نہیں کی بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ ڈی آئی جی کی کرسی اتنی گر گئی ہے کہ آج اس پر ایک حوالدار ڈٹا ہوا ہے۔
یہ لطیفہ تو ایک عرصہ سے ہماری سیاست پر صاد ر آرہا ہے لیکن یہ درست ہے کہ سیاست کے حالات جو بتدریج ہمارے ملک میں جڑ پکڑ چکے ہیں، ان میں اتنا بگاڑ آچکا ہے جن کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں رہی بلکہ یہ سب ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہم خود یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ہماری تحریک انصاف کی حکومت جب بن رہی تھی تو کئی وزراء، مشیران اور معاونین کو پتہ بھی نہ چلا کہ انھیں یہ عہدہ دے دیا گیا اور اب یہ حالت ہے کہ انھی وزیروں مشیروں کو علم ہی نہیں ہوتا اور وہ عہدے سے اتار دیے جاتے ہیں۔
دراصل عجلت میں کیے گئے فیصلوں کا علم تب ہوتا ہے جب ان فیصلوں کے نتائج سامنے آتے ہیںلیکن یہ بھی شکر ہے کہ اپنے کیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کی روایت بھی موجودہ حکمرانوں نے ڈالی ہے اور اپنے قریب ترین لوگوں کو بھی عہدوں سے اتارا ہے۔ اپنے قریبی دوستوں کو نوازنے کی روایت تو ہمارے ہاں بہت پرانی ہے مگر ان نوازے گئے دوستوں کو عہدوں سے اتارنے کی ریت کا سہرا موجودہ حکمرانوں کے سر ہے۔ ہمارے بعض دوست اسے یوٹرن کہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوںکہ ایسے یو ٹرن لینے سے ہی ملکی سیاست میں بہتری آئے گی صاف شفاف لوگ سامنے آئیں گے اور سیاست میں شرافت جو کب کی رخصت ہو چکی وہ شائد لوٹ آئے۔
معلوم یوں ہوتا ہے کہ عوام کے ووٹ حاصل کرنا تو آسان کام ہے لیکن ان ووٹوں کی لاج نبھانا اور ان کے نتیجے میں حکمرانی کرنا مشکل ہے۔ حکمرانی کے لیے جس تدبر اور دانش کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود تو ہے کہ حکومت میں کئی جماندروں اور گھاک سیاست دان اہم عہدوں پر براجمان ہیں لیکن وہ شائد ماضی کی طرح اپنے عہدوں کالطف اٹھا رہے ہیں اور اپنی نئی جماعت کو طرز حکمرانی کے لیے کوئی مقبول مشورہ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔
وہ ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں حالانکہ حالات اب بہت تبدیل ہو گئے ہیں اور عوام جنھوں نے ووٹ دے کر ان کو منتخب کیا ہے، اب اپنے ووٹوں کا حساب مانگتے ہیں، ہم سب دیکھیں گے کہ آیندہ الیکشن میں صرف کار کردگی کا حامل امیدوار ہی کامیاب ہو گا، عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں، وہ وقتی طور پر تو کار کردگی نہ دکھانے والے اپنے منتخب نمایندوں کو برداشت کر سکتے ہیں مگر اس کا حساب کتاب وہ رکھ رہے ہیں اور عوام اس کا جواب آیندہ الیکشن میں دیں گے۔ اس لیے ہمارے منتخب نمایندوں کی بہتری کے لیے عرض ہے کہ وہ ابھی سے اپنے مستقبل کے الیکشن کی تیاری کریں۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان سیاست دان نہیں ہیں، وہ ایک سچے پاکستانی اور ملک کا درد رکھنے والے انسان ہیں، اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کر رہے ہیں لیکن ان کی ٹیم کے بیشتر ارکان اس ملک کی سیاست میں پہلے بھی فعال کردار ادا کر چکے ہیں، مجھے یہ علم نہیں کہ ان کی ٹیم کے ساتھی ان کا ساتھ دینے گریزاں کیوں ہیں۔
بعض ایسے معاملات میں ہمارے حکمرانوں سے ٹھوکریں کھائی ہیں جس کی وجہ سے ان کے پاؤں اقتدار کی مسند پر ابھی تک جم نہیں پا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے طرز حکمرانی پر تنقید شروع ہو گئی ہے اور یہ تنقید بڑھ رہی ہے اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے۔
عمراں خان کی ذات عوام میں ابھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی وہ انتخابات سے پہلے تھی بلکہ شائد اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہو اس کی وجہ ان کی صاف گوئی ہے وہ جیسے ہی سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو بلا تامل اور توقف وہ اسے واپس لے لیتے ہیں ایک ایمانداراور صاف گو لیڈر کی یہی نشانی ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ رکھے۔
لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ان کی یہ صاف گوئی ان کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنتی ہے ان کے منجھے ہوئے سیاسی مخالفین ان کی شرافت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو کہ ظاہر ہے اپوزیشن کا کام ہے اور اپوزیشن کا دال دلیہ حکومت پر تنقید کر کے ہی چلتا ہے۔
آج کل اس تنقید میں اضافہ ہورہا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق اس مرتبہ سیاست میں نئی روایات متعارف ہونے جارہی ہیں جو ملکی سیاست میں کوئی واضح تبدیلی تو نہیں لائیں گی لیکن کچھ وقت کے لیے ایک ہلچل ضرور مچے گی اور یہ ہلچل میثاقیوں کو کچھ رعایت دلا دے گی۔ کشمیر کے اہم مسئلے کے بیچ ہمارے سیاست دان کیا گل کھلاتے ہیں اور اپنی پٹاری سے کیا برآمد کرتے ہیں ہم سب بہت جلد اس پٹاری کا پردہ اٹھتے دیکھیں گے۔ باقی رہے نام اﷲ کا۔