ہماری نوجوان نسل یہ سوال کرتی ہے کہ امریکا نے افغانستان میں کیا قہر برسایا تھا کہ وہ اب افغانیوں کے ساتھ امن معاہدہ کی صورت میں اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سوال میرے پوتے نے مجھ سے پوچھا ہے جو لاہور کے ایک اسکول کا طالبعلم ہے، اس کی پیدائش افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد کی ہے، اس لیے یہ بچہ امریکا کی بر بریت اور اس کی اعلان کردہ صلیبی جنگ سے نا آشنا ہے جو اس نے مسلمانوں کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ لیکن اس بچے نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ارد گرد دہشت گردی کی باز گشت اور قرب و جوار میں دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔
یہ بچہ انھی دھماکوں سے اب امن کی آواز بھی سن رہا ہے اس لیے وہ سوال کرتا ہے کہ کیا امریکا جیسی بڑی طاقت سر پر پگڑی باندھے، کندھے پر دھوتی رکھے اور پاؤں میں چپل پہنے افغانیوں سے ہار گئی ہے کہ وہ امن معاہدہ کر رہی ہے۔ میں بھیگتی مسوں والے اس نوجوان کو کیا بتاؤں کہ ہمیں بھی آج تک معلوم نہیں ہو سکا اور نہ ہی امریکا نے دنیا کو بتایا کہ نائن الیون کے حادثے کے پیچھے کون تھا لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ اس صلیبی جنگ کا پہلا نشانہ مسلمانوں کا ایک کمزور ملک، جنگ زدہ ملک، ویران ملک افغانستان بن گیا۔
امریکا نے اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں سے اس ملک کے پہاڑوں تک کو ریزہ ریزہ کر دیا لیکن پوری دنیا کو معلوم تھا کہ اس حادثہ کے پیچھے کہ اگر کوئی ملک نہیں ہے تو وہ افغانستان ہے اور امریکا اس ملک کو تباہ کر کے مسلمانوں کے خلاف محض اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نائن الیون کے حادثہ کے بعد امریکا پاگل ہو گیا تھا اور امریکا کے اس پاگل پن سے پاکستان نے بڑی مشکل سے جان بچائی تھی ورنہ امریکا کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ امریکا کی فرعونیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے افغانستان کو بد امنی میں جلتا چھوڑ کر عراق کا رخ کیا اور اسے تباہ کرنے کے بعد اس پر بھی قبضہ کر لیا۔
افغان رہنما یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس امریکا کے فضائی حملوں کا کوئی جواب نہیں لیکن اگر امریکا فضاؤں سے اتر کر ان کی زمینوں میں داخل ہو گیا تو حالات مختلف ہو جائیں گے، ہوا بھی یہی اور دنیا نے دیکھا کہ پگڑیاں پہنے اور کندھوں پر دھوتیاں رکھے افغانی امریکا کو اپنی پسند کے میدان جنگ میں کھینچ لائے جس کے وہ ماہر تھے کیونکہ ایک طویل عرصے تک وہ سوویت یونین کے خلاف اسی طرز کی جنگ لڑ چکے تھے اور اس تجربے کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے امریکیوں کو زمینی جنگ کا مزہ چکھانا شروع کر دیا جس میں امریکیوں کا قیمتی خون بہتا رہا۔ افغانستان میں امریکا نے جو تباہی مچائی یہ ان کے جسموں کو ختم کر سکی ہے مگر ان کے دلوں کو شکست نہیں دے سکی۔ جو نوجوان نسل امریکا سے خوفزدہ نہیں ہوئی وہ خدا کی اس سر زمین پر کسی اور سے ڈر نہیں سکتی۔ امریکا فانی تاریخ کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کی سفاکی اور بے رحمی دنیا نے دیکھ لی ہے۔
مسلمانوں کی وہ نوجوان نسل جو امریکا کے دنیا بھر کا ٹھیکیدار بننے کے بعد خواہ وہ کسی بھی مسلمان ملک یا کسی غیر مسلم ملک میں پروان چڑھی ہے، یہ سوال کرتی نظر آتی ہے، مسلمان ہی امریکا کے نشانے پر کیوں ہیں، یہی سوال اس بات کا سبب بن گئے ہیں کہ مسلمان نوجوان امریکا کی شروع کی گئی صلیبی جنگوں کے میدان جنگ میں کھینچے چلے آتے ہیں۔ جن نوجوانوں کو امریکی دہشت گرد کہتے ہیں جو دنیا بھر کے مسلمان ملکوں سے جنگ زدہ مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے ان کی سمت کوچ کرتے ہیں اور ان کی جنگ لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
ان مسلمان نوجوانوں کو آپ پاگل کہیں، جذباتی کہیں یا کوئی دوسرا نام دیں، یہ منظم ہو چکے ہیں اور حقیقت میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرنے والے امریکا کے خلاف دنیا کے کسی بھی محاذ جنگ پر نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ہے، ایک وہ ہیں جو اس دنیا کے حکمران ہیں دوسرے عوام ہیں حکمران امریکا کے قبضہ میں ہیں اور وہ دل سے چاہئیں یا نہ چاہئیں امریکا سے بغاوت نہیں کر سکتے، دوسرے طرف ان کے عوام ہیں جو امریکا سے بغاوت کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے نوجوان میدان جنگ کے لیے بے تاب رہتے ہیں، ان کے بزرگوں کے ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھے ہوتے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ کفار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ایک نہ ختم ہو جانے والی جنگ شروع ہو چکی ہے جس کا سرخیل امریکا ہے۔ ایک طرف اس کی عدیم المثال فوجی اور مالی طاقت ہے دوسری طرف اس کے تناسب سے کچھ بھی نہیں ہے۔ بظاہر دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن پھر بھی مقابلہ جاری ہے، یہی وہ جذبہ ہے جسے عرف عام میں جہاد کہا جاتا ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جس سے زیادہ قابل نفرت چیز امریکا کے لیے کوئی اور نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے اسلحہ خانوں اور مال و زر کے خزانوں میں اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے جہاں امریکی طاقت بے بس ہو جاتی ہے اور اس کا گھمنڈ ٹوٹ جاتا ہے ایمان کی طاقت سے مالا مال افغانیوں نے پہلے سوویت یونین اور اب امریکا کا گھمنڈ توڑا ہے جس سے جدید ترین اور ہولناکی پھیلانے والے اسلحہ سے لیس اپنی بے بسی پر حیرت زدہ ہیں کیونکہ ان خیال میں کس کی مجال تھی کہ ان کے سامنے دم بھی مار سکے۔
افغانستان کے کہساروں میں جو معرکہ برپا رہا ہے دنیا منہ کھولے حیرت کے ساتھ اسے دیکھتی رہی ہے کوئی کابل کے دریا سے پوچھے کہ اس نے اپنی تاریخ میں جو تماشے دیکھے ہیں یہ نیا تماشا کیا ہے امریکا افغانستان میں غرور و تکبر کی جن انتہاؤں پر جھوم رہا تھا وہ ا ب افغانیوں سے اپنی جان چھڑا رہا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا جس بلندی پر پہنچ چکا تھا اس کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو اس بلندی پر جما اور ٹکا رہے یا پھر نیچے اترنا شروع کر دے کیونکہ اس سے اوپر اب کوئی گنجائش نہیں رہی ایسی بلندی پر قیام ممکن نہیں ہوتا۔ ایورسٹ کو بھی ہاتھ لگا کر واپس آنا پڑتا ہے۔ امریکا ان بلندیوں اور انتہاؤں سے منہ کے بل نیچے گر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ زمین کے پہاڑ اس کی پستی کو کس طرح جذب کرتے ہیں، بلندی اور پستی کی یہ جنگ جاری رہے گی۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرتی رہے گی۔