Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Do Dost

Do Dost

ایک دوست نے جب اپنے ایک پرانے دوست کو بے وقت یاد کیا تو وہ اپنے دوست کا پیغام ملتے ہی گھر سے چل پڑا اور جب اپنے دوست کے دروازے پر دستک دی تو اس کے پاس ایک تلوار تھی، ایک تھیلی سکوں سے بھری ہوئی تھی اور ساتھ اس کی بیٹی تھی۔ دوست نے دروازہ کھولا تو یہ سب دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔

اس کے مہمان دوست نے کہا کہ بھائی میں نے جب تمہارا پیغام بے وقت سنا تو پریشان ہو گیا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ میں نے سوچا شاید میرے دوست کو دشمن نے پریشان کیا ہو، اس لیے تلوار اٹھا لی۔ پھر سوچا کہ شاید کوئی مالی پریشانی پیش آگئی ہو، اس لیے روپوں کی تھیلی ساتھ لے لی۔ پھر سوچا کہ ہو سکتا ہے تمہیں بیٹے کے لیے رشتے کی فوری ضرورت پڑ گئی ہو اس لیے بیٹی کو ساتھ لے آیا ہوں۔ اب تم بتاؤ کیا بات ہے اور کیوں تم نے مجھے عجلت میں یاد کیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر میزبان اپنے دوست کے گلے لپٹ گیا اور کہا کہ تمہارا دوستی کا یہ انداز دنیا کو یاد رہے گا۔

ہمارے وزیر اعظم اپنے پرانے دوست چین کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے بعد واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ وہ ایک اور نازک وقت میں عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت پہنچے تھے۔ بیجنگ جو ہمیں اسلام آباد کی طرح عزیز ہے کیونکہ یہ اسلام آباد کے سچے دوستوں کا شہر ہے جہاں سے ہمیں …

ازما بجز حکایت مہر و وفاء مپرس

کی آواز آتی ہے۔ چین نے ہمیں ہر برے وقت میں والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا ہے۔ پاکستانی قوم 1965کو بھی نہیں بھول سکتی جب پاک بھارت جنگ میں چین نے اس کاروباری زمانے میں دوستی کا حق ادا کر دیا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین ہمارے لیے اب کچھ بھی نہ کرے لیکن اس نے جو کر دیا ہے وہ آج کی دنیا میں دوستی کی مثال بن کرزندہ رہے گا۔ ایک امریکا ہے جس کے ساتھ دوستی میں ہم نے اپنی دنیا ہی نہیں عاقبت بھی برباد کر دی۔

ہم پر امریکا کی غلامی کا ٹھپہ لگ گیا۔ ہم اس دنیا میں امریکا کے پٹھو بن گئے اور امریکا کے ساتھ ہماری یک طرفہ دوستی دنیا بھر میں ہمارا مذاق بن گئی ہے۔ ہم امریکا کے اشارے پر کئی ایسے کام بھی کر گزرے جن کی ہمارے دین میں بھی گنجائش نہیں تھی ہم سے افغان ہی اچھے رہے جو ایک ایٹمی طاقت کی ہمسائیگی کے نشے میں ہی دنیا کی واحد سپر پاور امریکا سے ٹکرا گئے اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہے۔

ہم نے امریکا کے اشارے پر ایسے معاہدے کیے کہ رفتہ رفتہ اپنے وطن عزیز کو امریکا کا رہن بنا دیا لیکن جب بھی ہم پر برا وقت آیا امریکا دوسری طرف کھڑا نظر آیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ مصنوعی رکھ رکھاؤ سے کام لیتا تھا اور گول مول پالیسی اختیار کر لیتا تھا کہ ایشیاء میں اس کے دوست کا کچھ بھرم رہ جائے لیکن آج تو وہ کھل کر ہمارے دشمن کا ساتھ دے رہا ہے۔

کوئی ڈپلومیسی نہیں، کوئی رکھ رکھاؤ نہیں، صاف صاف الفاظ میں وہ بھارت کا ساتھ دے رہا ہے اور ہمیں ثالثی کا پیغام دے کر ٹرخایا جا رہا ہے ورنہ بھارت کی یہ جرات نہیں تھی کہ وہ امریکا کی منشاء کے بغیر کشمیریوں کے حقوق سلب کرتا اور اگر امریکا ہمارے ساتھ مخلص ہوتا تو ہمارے وزیر اعظم کی درخواست پر بھارت کو ایک پیغام بھیج کر کشمیریوں کے حقوق بحال کرا دیتا۔ مگر امریکا کے مقابلے میں چین ہمارے ساتھ دوستی کا دم بھر رہا ہے اور پاکستان کو اس کی جغرافیائی سرحدوں کی سلامتی کا یقین بھی دلا رہا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین اب 1965 والا چین نہیں رہا۔ وہ اب ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت بن گیا ہے۔ اس کی اقتصادی ترقی کی رفتار بے مثال ہے وہ کوئی الگ تھلگ دیواروں اور پردوں میں بند چین نہیں رہا۔ وہ دنیا میں ایک طاقت ور معیشت کے ساتھ اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن اپنے غیر ملکی تعلقات، کاروباری مجبوریوں، ضرورتوں اور مصلحتوں کے باوجود پاکستان کو نہیں بھولا۔ لیکن ہم پاکستانیوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ چین ایک ایسے دوست کی کب تک خبر گیری کرتا رہے گا، کب تک اس کی جنگیں لڑتا رہے جو اپنی خبر گیری نہیں کرتا، جو اپنی جنگ اپنے زور بازو سے نہیں لڑتا۔ درست ہے کہ پاکستان بھی اب 1965 والا پاکستان نہیں رہا اور نہ 1970 والا پاکستان ہے۔

وہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کے میزائلوں کی گونج بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔ لیکن پاکستان کے دوست اور دشمن اس قومی اعتماد کا انتظار کررہے ہیں جو پاکستان کی اصل طاقت ہو گا۔ چین کے سیاستدانوں کی یہ قدرتی خواہش ہے کہ پاکستان اس کا ایک طاقت ور دوست بن کر اس کی دوستی کا حق ادا کرے اور ایشیاء میں یہ دونوں دوست ایک زبردست طاقت بن کر اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان کے وزیر اعظم دو روز اپنے چینی دوستوں کی مہمان نوازی میں رہے ہیں۔ دونوں دوستوں میں یقیناً وہ سب باتیں ہوئی ہوں گی جو ایسے نازک موقع پر دوستوں میں ہوا کرتی ہیں جب ایک دوست کسی مشکل سے دوچار ہو۔ صلاح و مشورے اور مستقبل کے منصوبے، تعلقات کی تجدید اور استحکام کے ارادے۔

صحیح ہے کہ پاکستان چین کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے لیکن پاکستان نے بعض خدمات بھی سر انجام دی ہیں اور چینی قوم ایسی ہے جو کسی کا احسان بھولنا نہیں جانتی، تالیاں دونوں ہاتھوں سے بجتی رہی ہیں۔ تازہ ملاقاتوں کی رُوداد رفتہ رفتہ معلوم ہو گی لیکن پاکستانی یہ تسلی رکھیں کہ چینی دوست حساب کتاب سے بڑھ کر دوستی نبھائیں گے۔ حساب دوستاں درد دل۔