فی الحال مولانا کا دھرنا بھی جاری ہے اور حکومت کی جانب سے مفاہمتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ مولانا کے دھرنے میں براجمان ان کے پیروکار سرد موسم کی وجہ سے بیمار ہونا شروع ہو گئے ہیں اور انھوں نے اسلام آباد کے اسپتالوں کا رخ کر لیا ہے۔ اسی سرد موسم میں آج سے چند برس قبل ہم نے علامہ طاہر القادری کو اپنے گرم کنٹینر میں پسینہ صاف کرتے بھی دیکھا ہے۔
کنٹینر سے باہر ان کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کے ملازمین اور ان کے اہل خانہ سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے جب کہ علامہ طاہر القادری اپنے گرم کنٹینر میں بیٹھ کر اپنے ملازمین کو گھنٹوں اپنے وعظ سے مستفید کرتے رہے۔ شکر ہے کہ مولانا فضل الرحمن ا بھی تک موسمی بیماری سے بچے ہوئے ہیں وہ رات کو اپنے گھر میں آرام کرتے ہیں اور شام کو دھرنے کے شرکاء کو اپنی دن بھر کی کار کردگی کی رپورٹ سناتے ہیں اس لیے موسم کا ان پر اثر نہیں ہو رہا البتہ ان کے لیے سیاسی موسم کافی ناسازگار جا رہا ہے اور آئے روز اس میں تبدیلی ہو رہی ہے۔
مولانا نے اپنے مقتدیوں یعنی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کا فیصلہ سب کا مشترکہ تھا اس لیے وہ اب احتجاج سے بھاگنے کے بجائے ان کا ساتھ دیں۔ عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔ موسم کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے یاد آتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے انقلابی لیڈر مولانا بھاشانی بھی کبھی بیمار پڑ جاتے تھے اور خبر ملتی تھی کہ مولانا اسپتال میں داخل ہیں بطور رپورٹر حاضر ہوتے تو مولانا ٹانگیں پھیلا کر اسپتال کے بستر پر سو رہے ہوتے اس کا پتہ ان کے خراٹوں سے چلتا۔
یہاں لاہور میں ان کا قیام ایک انقلابی جاگیردار میاں افتخار الدین کے بنگلے پر ہوتا تھا لیکن بیماری کی سیاسی خبر اسپتال میں بنتی تھی اس لیے وہ بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہو جاتے تھے۔ ان کی بیماری بہت مشہور تھی جیسے ہمارے آج کل کے بیشتر سیاسی لیڈر مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اسپتالوں میں داخل ہیں یعنی ہمارے غیر انقلابی لیڈر بھی بیمار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ خدا ان سب کو جلد از جلد صحت یاب کرے تا کہ وہ مولانا کے احتجاج میں مکمل شرکت کر کے ان کے شکوے کو دور کر سکیں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے دھرنے سے حکومتی حلقوں میں ایک ہلچل مچا رکھی ہے اور حکومت خود ان کے دھرنے کی پبلسٹی میں پیش پیش ہے۔ اپنے سربراہ کی دیکھا دیکھی حکومتی وزیروں مشیروں کی طرف سے کل تک دھواں دھاردھمکی آمیز بیانات جاری ہو رہے تھے لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے اپنے وزیروں باتدبیروں کو خاموش رہنے کا حکم دے دیا ہے۔
لگتا ہے حکومت مذہبی لیڈر کی طرف سے پریشان ہو گئی ہے حالانکہ فی الوقت مولانا فضل الرحمن اسمبلی کے ممبر بھی نہیں ہیں اس کے باوجود انھوں نے حکومت کو بہت بڑا چیلنج کر دیا ہے ان کو یا تو کسی نے اکسایا ہے یا پھر اقتدار سے دوری کی وجہ سے اندرونی بے قراری نے انھیں اس عجلت پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے مقتدین کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ دھرنے میں شریک ہے جب کہ ان کے سیاسی ساتھیوں نے ان کا ساتھ نہیں نبھایا جنھوں نے مولانا کو اس احتجاج میں دھکا دیا ہے وہ ان سے شکوہ شکایت کر رہے ہیں۔ ان کے سیاسی ساتھی ان کے گلے کا کیا جواب دیتے ہیں یہ دیکھ لیں گے کہ صرف ایک آدھ دن کی تو بات ہے۔ کہیں میاں نواز شریف والی بات نہ ہو کہ "قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں " لیکن میاں صاحب کہتے تھے کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا۔
ملک میں جاری احتجاجی سیاست کا تو یقینا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا لیکن اس حل کے اثرات حکومت کی کمزوری پر منتمج ہوں گے جو اس ملک کے مایوس عوام کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کریں گے جنھوں نے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اپنا حکمران چنا تھا اور وہ پاکستان دیکھنا چاہتے تھے جسے پیدا کرنے کے لیے ہمارے کبھی قافلے چلے تھے لیکن دھڑام سے منہ کے بل گر گئے اور کپڑے جھاڑ کر اٹھے تو سامنے انگریز کے پلے ہوئے کھوکھلی بے جان زندگیاں گزارنے والے اشرافیہ کھڑے تھے اور پھر چل سو چل اور آج کا دن آ گیا کہ جب یہی اشرافیہ ایک بار پھر ان کے سامنے کھڑی ہے۔ دھرنوں کی ریت ڈالنے والے اب خود دھرنے سے نمٹنے کے لیے سہاروں کی تلاش میں ہیں۔ دراصل عمران خان کی قیادت میں جس مستقبل کے خواب دیکھے گئے وہ ابھی ادھورے ہیں اور مولانا نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔
فارسی کے ایک شاعر انوری کو زمانے سے بہت گلہ تھا یہاں تک کہ وہ کسی بھی آسمانی بلا کو اپنے لیے ہی سمجھتا تھا۔ اس نے ایک قطعہ کہا کہ آسمان سے جب بھی کوئی بلا زمین کا رخ کرتی ہے تو وہ یہ پوچھتے ہوئے آتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے۔ ہمارا پاکستان بھی مجھے کبھی کبھی خانہ انوری دکھائی دیتا ہے کہ ایک بلا ختم یا کسی حد تک کمزور نہیں ہو پاتی کہ اس کی جگہ دوسری نازل ہو جاتی ہے بلکہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ بلائیں ہم پر مسلط رہتی ہیں۔ مجھے تو یہ ملک اپنے لیڈروں کی بداعمالیوں کی وجہ سے بددعایا ہوا لگتا ہے اور ناراض نہ ہوں ہم اللہ سے معافی نہیں مانگتے اس کی نافرمانی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس کی بلاؤں کو دعوت دیتے رہتے ہیں۔
ذرا اپنی حالت پر غور کیجیے اگر ہم تاجر ہیں تو ہمارے بازار بد دیانتی سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر ہم سرکاری انتظامیہ ہیں تو ہمارے دفتر بدعنوانی سے بھرے ہوئے ہیں اگر ہم حکمران ہیں تو ہم کرپشن کا مرکز ہیں اور دن رات اسے پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہم پاکستان میں زندہ ہیں اور جیسے تیسے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کا کیا انجام ہوتا ہے اب کے حکومت پوری طرح میدان میں اتر چکی ہے جس کے پاس بہت کچھ ہے دوسری طرف جوش ہی جوش ہے اور فلک شگاف نعرے ہیں۔ تھوڑا سا صبر۔