کشمیر کی جنگ ابھی باقی ہے، طاقت ور دشمن بھارت کے بہی کھاتوں میں اور ہمارے ادھار کے رجسٹروں میں ایک پرانا حساب کتاب درج ہے جو ہمیں چکانا ہے لیکن وقت کا یہ تقاضہ ہے کہ جوشیلے اور بھڑکیلے نعرے یہ حساب بے باک کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ ہی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی کسی میز پر کشمیر کا حل رکھا ہوا ہے۔
دنیا کو بتانے کے لیے یہ بات درست ہے کہ ہم اس مسئلہ کا حل جنگ سے نہیں مذاکرات سے چاہتے ہیں لیکن بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ بھارت جس کو پاکستانی خوب جانتے ہیں، وہ مذاکرات اور دلیل اور منطق کی زبان نہیں سمجھتا۔ ہمارے دفتر خارجہ اور اس کے مشوروں پر چلنے والے حکمرانوں کو بھارت کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت کے ہندوئوں کو جاننے والے مسلمانوں کے ذہن بالکل صاف ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ ان کا کس خطرناک اور عیار دشمن سے واسطہ ہے۔
اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ کشمیر کو بھول جائے لیکن ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں بھارت کے خلاف ایک ہمہ گیر اور بھر پور جنگ کی تیاری کرنی ہے۔ یہ جنگ معاشیات کے میدان میں ہو گی، یہ جنگ سفارتکاری کے محاذ پر ہو گی، یہ جنگ عوام کے نہ ٹوٹنے والے مورال اور حوصلے کے محاذ پر ہو گی اور یہ جنگ مسلح افواج کے محاذ پر ہو گی۔
ہر محاذ اور اس کا ہر مورچہ جب تک مضبوط نہیں ہو گا تب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا اور ان محاذوں میں سب سے اہم محاذ قیادت اور لیڈر شپ کا محاذ ہے جہاں سے پہلے حملے کا نعرہ بلند ہو گا لیکن یہ نعرہ گرم محاذ جنگ سے پہلے ایک سرد محاذ جنگ پر بلند ہو گا یعنی جنگ کی تیاری کے محاذ پر اور جنگ کی تیاری ایک بردبار حوصلہ مند عوام کے لیے قابل اعتماد اور منصوبہ ساز قیادت میں ہو گی۔ ایک ایسی قیادت جس میں دانش بھی ہو اور جرات اور شجاعت بھی۔ بلا شبہ سپہ سالار کی ٹھوس حکمت عملی، ذہانت اور جرات فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ایک جذباتی اور مشتعل مزاج قوم ہیں۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جان کی قربانی اور اس کے بدلے جنت کی بشارت بے خود کر دیتی ہے۔ یہی بات ہمارے شاعر نے یوں کہی ہے…
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
لیکن مومن جب دنیا کی سپر فوجی طاقت تھے تو وہ بے تیغ نہیں تھے ان کے ہاتھ میں تلوار ہوتی تھی البتہ اس کے دستے پر ایک مومن کا ہاتھ ہوتا تھا لیکن دشمن کو لقمہ اجل تلوار ہی بناتی تھی۔ آج بھی ہماری تلوار دشمن کی تلوار سے زیادہ آبدار ہونی چاہیے۔ ہماری توپیں دشمن سے بہتر ہو نی چاہئیں اور ہمارے جہاز اس سے زیادہ سبک رفتار ہونے چاہئیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگوںمیں مسلمانوں کا اسلحہ دشمن سے بہتر ہوتا تھا اور مسلمانوں کی جنگی حکمت عملی زیادہ دانشمندانہ ہوتی تھی۔ مومن کی فراست اسے ہی کہتے ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم سپاہی میں فرق یہ ہے کہ مسلمان موت کے ڈر سے پیچھے نہیں ہٹتا کیونکہ اسے موت آتی ہی نہیں ہے، شہید زندہ رہتا ہے ہماری طرح کھاتا پیتا ہے مگر ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔
پرانے زمانے میںجنگیں ایک نفع بخش عمل بھی تھیں۔ فاتح کو مال غنیمت ملتا تھا مگر آج کی جنگیں اس عمل سے خالی ہیں۔ فاتح ہو یا مفتوح وہ الٹا مفلوک ہو جاتا ہے۔ اس لیے کسی جنگ کی تیاری کی اول شرط کسی قوم کی معاشی خوشحالی ہے تا کہ وہ جنگ کے نقصانات کو برداشت کر سکے۔ اب جنگوں میںکوئی ملک فتح نہیں ہوتا کہ اس پر قبضہ کر کے اس کی دولت سے اپنا جنگی خرچ پورا کیا جا سکے۔ اسلحہ دنیا کا گراں ترین سامان ہے اس ساز و سامان کی قیمت معلوم کر کے جنگ سے پہلے جنگ کا سامان فراہم کرنا کسی غریب قوم کے بس کی بات نہیں ہے۔
لازم ہے کہ ملک میں اتنی خوشحالی ضرور ہو جس کی مدد سے فوجیں جنگ کا سامان فراہم کر سکیں اور پھر جب جنگ ہو تو اس کے نقصانات کو بھی پورا کر سکیں۔ جس ملک میں غربت کے مارے خودکشیاں ہو رہی ہوں کارخانے بند ہوں زراعت غلط پالیسیوں کی وجہ سے جاں بلب ہو ایسے ملک کو جنگ سے پہلے اپنی معاشی حالت سدھارنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ان قرضوں سے نجات کی کوئی صورت نکالنی چاہیے جن کی وجہ سے مقروض ملکوں کو بے بس کر دیا جاتاہے۔ جو ملک ادھار کی قسط مل جانے پر جشن مناتا ہو وہ ملک جنگ کا سازو سامان کہاں سے فراہم کرے گا اور کتنا کرے گا۔
بھارت کے خلاف ایک بڑی جنگ ہمارے قومی مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ ہماری معاشی بدحالی میں ہم پر یہ جنگ ٹھونس دی گئی ہے اور ہمارے پاس یہ چوائس نہیں ہے کہ یہ جنگ ہم اپنی مرضی کے وقت پر شروع کر سکیں کیونکہ یہ بات تو اب واضح ہو چکی ہے کہ بھارت سے اس کا مقبوضہ کشمیر لیا نہیں چھینا جا سکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمیں ہر حال میں طے کرنا ہے لیکن ہم ایک ایسی حالت جنگ میں تا دیر زندہ نہیں رہ سکتے جو لڑے بغیر ہمارے وسائل کھاتی چلی جائے اور ہمارا قومی سکون غارت کیے رکھے۔ ہم اپنے قریب قریب تما م وسائل کشمیر کے لیے جنگ پر خرچ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے کہ قوم اور ملک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے اور ساتھ ساتھ جنگ کا نعرہ بھی۔ یہ دھوکا ہو گا۔