وطن عزیز میں اثاثوں کے اعلان کے لیے باقاعدہ ایک قانون موجود ہے اور یہ قانون بااثر اور باحیثیت لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا کیونکہ ملک میں اور ملک سے باہر رہائش پذیریہ بااثر لوگ اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنے میں کنجوسی سے کام لیتے رہے لیکن اثاثوں کی بڑھوتری میں انھوں نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اس لیے حکومت کو اس معاملے میں قانو ن سازی کرنی پڑی جس کے بعد ہمارے ملک کا امیر طبقہ کسی نہ کسی حد تک اپنے اثاثے ظاہر کرنے پر مجبور ہو گیا۔
یہ قانون بنایا تو باحیثیت لوگوں کے لیے تھا لیکن اس کے شکنجے میں میرے جیسے کم حیثیت لوگ بھی آ گئے جوآج بھی اس قانون کو اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ بھگت رہے ہیں اور اپنے نام نہاد اثاثوں کو ظاہر کرنے پر مجبور ہیں۔
اثاثوں کا اعلان اور ان پر تبصرے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں بلکہ جو لوگ عوامی نوعیت کے عہدوں پر تعینات ہیں یا الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ قانون کے تحت اپنے اثاثوں کا اعلان بھی کرتے ہیں مگر اس موقع پر کوئی ان کی چھان بین نہیں کرتا اور یہ اعلان یکطرفہ ہی رہ جاتا ہے۔
ماضی کی روایت یہ رہی ہے کہ سیاستدانوں کی ایک ٹریڈ یونین بن جاتی ہے اور اقتدار میں آنے والے اقتدار سے محروم لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کرتے رہے۔ چور چوروں کا تحفظ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ لیکن یہی تحفظ جب اس حد تک پہنچ جائے کہ اقتدار والے اور اقتدار سے باہر لوگوں کے اثاثوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے تو پھر اللہ کا قانون بھی حرکت میں آ جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی کاروبار ایسا نہیں جس میں راتوں رات اتنا زیادہ منافع ہو جائے کہ اثاثے زمین سے آسمان تک پہنچ جائیں یعنی ان میں اتنا اضافہ ہو جائے جو انسانی عقل سے باہر ہو۔
اثاثوں میں یکا یک بے تحاشہ اضافہ یقینا کسی لوٹ مار کا نتیجہ ہی ہوتا ہے اور یہ لوٹ مار عوام کے پیسے کی ہوتی ہے۔ عوام نے جن صاحب حیثیت لوگوں کو اپنا حکمران بنا کر ان کو اپنے مال و دولت کی ذمے داری سونپی ہوتی ہے وہی صاحب حیثیت لوگ اس امانت میں خیانت کرتے ہوئے لوٹ مار کر کے اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
غریب ہونا کوئی اعزاز نہیں ہے۔ جہالت اور غربت سے رسول پاکﷺ نے پناہ مانگی تھی لیکن جو لوگ اثاثے بنانے کی پوزیشن میں ہوں اور رہے ہوں وہ اگر ایسا نہ کریں تو پھر ان کی غربت اعزاز بن جاتی ہے جیسے آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سے پتہ چلتا ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی ہمارا ایک قومی آزار ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ یہ ابتلا ہمیں اس حال میں لے آیا ہے۔ جن لوگوں کو قدرت نے اقتدار دیا انھوں نے اس کی نعمت پر اکتفا نہ کیا اور اسے اپنی خوشحالی کا ذریعہ بنا لیا۔ رعایا خود کشیاں کرتی رہی اور یہ لوگ اثاثے بناتے رہے۔
ہماری حکومت کے سامنے ایسے ہی مسائل کے کئی پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ مسائل اگر وہ صدق نیت اور دل سے حل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہم عوام بھی ان کا ساتھ دیں گے اور اگر انھوں نے ماضی کی طرح سیاسی شعبدہ بازی کی کوشش کی تو پھر وہ جانیں اور ان کے مسائل۔ پاکستان کے عوام اب عقلمند ہو گئے ہیں۔ اگر وہ کسی سیاستدان کے لیے تحریک نہیں چلاتے تو کسی حکمران کی مدد کے لیے بھی تیار نہیں تاآنکہ وہ ان کی مدد پرتیار نہ ہو۔
حکومتی ترجمان سابقہ حکمران شریف خاندان پر تاک تا ک کر نشانے لگا رہے ہیں، وہ شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سنا کر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش میں مصروف ہیں، اپنی اس کوشش میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، اس کا پتہ تو مستقبل میں چلے گا، جب الیکشن ہوں گے تو عوام کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع ملے گا، اس وقت دیکھا جائے گا کہ پاکستانی قوم کاحافظہ کتنا تیز ہے۔ میاں نواز شریف کی علاج کے لیے ا ور ان کے ساتھ شہباز شریف کی تیمارداری کے لیے لندن میں مقیم ہیں جہاں پر نواز لیگ کے پاکستانی رہنما بھی پہنچ چکے ہیں اور مستقبل کی سیاست کے لیے میاں صاحبان سے گائیڈ لائن لے رہے ہیں۔
لندنی سیاست کے اس گٹھ جوڑ سے مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ شائد دونوں بھائی لندن سے واپس پاکستان نہیں آئیں گے، اس لیے انھوں نے پارٹی رہنمائوں کو لندن ہی بلا لیا ہے لیکن ماضی میں انھوں نے اس طرح کی چہ مگویوں کو غلط ثابت کیا تھا۔ اب جب کہ شہباز شریف خاندان کے خلاف مبینہ کرپشن کے کیس بنائے جا رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ فی الوقت اپنی واپسی موخر کر دیں۔ میاں شہباز شریف کے بڑے بیٹے حمزہ شہباز جو نواز لیگ کی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں، اس وقت پاکستان میں نیب کی حراست میں ہیں، یوں لگتا ہے کہ وہ ضمانتی کے طور پر پاکستان میں ہی رہیں گے۔
شہباز شریف کے خلاف یکایک اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات سامنے آ رہے ہیں، ان الزامات میں کتنی سچائی ہے اس کا علم تو آنے والے دنوں میں ہو گا لیکن دوسری جانب پاکستانی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی وصولی بھی جاری ہے۔ عمران خان دلجمعی سے اپنے ایجنڈے پر کار بند ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی ذہن کے نہیں ہیں اور یہی ان کی خوبی بن گئی ہے، وہ اپنے پروگرام کے مطابق دونوں سیاسی گروپوں کو سیاست سے باہر کرنے میں یا عوام میں ان کا برا تاثر بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پاکستان کی سیاست کے بزرجمہر عمران خان کی سیاست سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسی پارٹی ملک میں موجود ہونی چاہیے جو ان کے ابرو کے اشارے کی منتظر رہے، یہی وجہ ہے کہ ہر روز عمران خان کی حکومت کے ڈولنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
عمران خان اور ان کی ٹیم جتنا زور اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لیے لگا رہے ہیں اگر وہ اس کا ایک چوتھائی بھی ملکی معیشت اور خاص طور پر عوام کو روزمرہ اشیائے ضرورت کی سستے داموں فراہمی پر لگا دیں تو مجھے یقین ہے کہ عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور کسی کو یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کر سکے۔ عمران خان کو اپنے الیکشن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی کوئی شکل و صورت بنا نا پڑے گی اور اگر اس میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی حریف سیاسی جماعتیں اپنی موت آپ مر جائیں گی لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ ابھی تک حکومت نے اپنے الیکشنی وعدوں کی جانب کوئی قدم نہیں بڑھایا۔
یہ بات تو اب ثابت ہو گئی ہے کہ ملک کو بے دردی سے لوٹا گیا اور لوٹ مار کا مال بیرون ملک منتقل کر دیا گیا جس کی وصولی کے ساتھ ہی لوٹ مار کی رسید بھی مل گئی ہے۔ نیچے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک بدعنوانوں کا ہم سب کو پتہ ہے لہذا کسی رو رعایت کے بغیر ان بدعنوانوں سے لوٹ مار کا مال برآمد کر لینا چاہیے۔ انصاف، عدل اور مساوات کے ساتھ عمران خان آگے بڑھیں تو عوام کے علاوہ فرشتوں کی فوج بھی ان کے ساتھ ہو گی۔