ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جس کی خوبصورت روایات کے ایک مدتوں اسیر رہے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم نے ان تما م روایتوں کو پس پشت ڈال دیا جو ہمیں دوسرے معاشروں سے ممتاز اور منفرد کرتی تھیں۔
ہم نے رفتہ رفتہ ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھایا جس میں رواداری، بردباری اور تحمل مزاجی ماضی کی بھولی بسری یادیں بن گئیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی بن گئے جس میں اذیت پسندی اور عدم برداشت ہمارا معمول بن گیا یعنی ہم ایک وحشی معاشرے کا حصہ بن گئے، ایک ایسا معاشرہ جہاں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا بلکہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہی قانون بن جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں ہم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل کر دیا جس میں ہم سب اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں کسی اور کا ہمارے خود ساختہ معاشرے میں عمل دخل ہمارے لیے انتہائی ناپسندیدہ ہے۔
ہم اس دخل کو برداشت کرنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں آج کے ترقی یافتہ دورمیں اس کو جنگلی معاشرے کا نام دیا جانا چاہیے۔ اسلام کے پیروکاروں کو ان کا مذہب رواداری، برداشت اور معاف کر دینے کا درس دیتا ہے لیکن ہم نے اپنے آپ کو ایک ایسے خول میں بند کر لیا ہے جس میں سے مذہب کا گزر بھی بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ مذہب سے دوری نے ہمارے اندر خرابیاں پیدا کر دی ہیں جس کی وجہ سے ہم نے زندگی گزارنے کے اپنے اصول وضع کر لیے ہیں جن میں کسی کا عمل دخل ممنوع قرار پایا ہے۔
پاکستان میں روایات کے امین خوب سیرت دم توڑتے معاشرے کی ایک جھلک ہم سب نے اور پوری دنیا نے چند روز پہلے لاہور میں اپنی آنکھوں سے دیکھی جب ہمارے ملک میں قانون کے رکھوالے کہلانے والے نام نہاد وکلاء نے صوبے کے سب سے بڑے دل کے اسپتال پر دھاوا بول دیا۔
وکیلوں کی اسپتال پر یلغار سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی دشمن کو نیست و نابود کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں اور دشمن کو آج ختم کر کے ہی واپس لوٹیں گے۔ وجہ عناد کے بارے میں جب ادھر ادھر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ کسی وکیل صاحب سے ڈاکٹر نے چند روز پہلے بدتمیزی کی تھی جس کی سزا وکیلوں نے یہ مقرر کی کہ انھوں نے اپنا مقدمہ کسی جج کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے خود ہی منصف بن جانے کو ترجیح دی اور اس منصفی کے لیے جتھے کی شکل میں دل کے اسپتال پر حملہ آور ہو گئے۔ وکلا حضرات کا چونکہ ذاتی عناد تھا اور اس میں کوئی غریب موکل شامل نہیں تھا جس سے وہ فیس بٹورتے اس لیے انھوں نے عدالت میں کیس کرنے کے بجائے سرراہ خود ہی عدالت لگا لی۔
ملزم تھے ڈاکٹر اور غریب اور بے کس مریض جو وکیلوں نے کٹہرے میں کھڑے کر دئے اور پھر انھوں نے ان کو اپنے کٹہرے میں دھو ڈالا۔ وکیلوں نے قانون کے معروف معنوں میں استغاثہ دائر کیے بغیر اپنے ہاتھوں میں مہلک ہتھیاروں کو ہی اپنا استغاثہ بنا لیا اور ملزم مسیحاؤں اور مریضوں کوکسی جج کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے اپنی یعنی وکیلوں کی عدالت میں حاضر کر دیا اور یہ حاضری ہم سب نے براہ راست دیکھی اور سنی۔
پاکستان میں اس طرح کے واقعات کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہیں بلکہ کچھ وقفے کے بعد کہیں نہ کہیں کوئی ایسا انسانیت سوز واقعہ پیش آتا رہتا ہے جس پر چند دن بہت واویلا مچتا ہے لیکن چند دن کے بعدمعاملہ سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے تا آنکہ کوئی اور واقعہ پیش آجاتا جو قوم کی مصروفیت کا بہانا بن جاتا ہے۔
پاکستان کو جہاں بیرونی محاذوں پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے وہیں پر اندرون ملک مسائل کا انبار بھی کم نہیں ہے اور ایسے پرتشدد واقعات اندرونی مسائل میں مزید اضافے کا موجب بنتے ہیں جن سے معاشرے میں بے چینی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے۔ حکومت کی یہ مشکل ہے کہ وہ کسی ایک بحران سے عہدہ برآ ہو نہیں پاتی کہ ایک اور طوفان اس کا منتظر ہوتا ہے۔
لاہور کا واقعہ اس ناگہانی طوفان کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وکیلوں نے اسپتال میں گھس کر مریضوں کے منہ پر لگے آکسیجن فراہم کرنے والے ماسک کھینچ ڈالے جن سے ان کی سانس کی ڈوریں چل رہی تھیں اور حملہ آور وکلا نہتے اور کسمپرسی کی تصویر بنے بے بس مریضوں کو کسی دوسرے اسپتال میں علاج کا مشورہ دیتے رہے۔ بے چارے مریضوں نے کسی دوسرے اسپتال میں علاج کیا کرانا تھا وہ بے بسی کی حالت میں اپنا مقدمہ کسی وکیل کے سپرد کیے بغیر خود ہی وکیل اورگواہ بن کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں جہاں پر دنیا کا خالق ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے گاکہ ملزموں کا کیا قصور تھا اور ان کو کیا سزا دی جائے۔
میں نے اس ملک میں بہت احتجاج دیکھے ہیں اوران کی براہ راست رپورٹنگ بھی کی ہے۔ لاہور میں احتجاجی تحریکوں کے لیے بیرون موچی دروازہ اور ناصر باغ پسندیدہ مقامات تھے جہاں پر جلسے منعقد ہوتے مقرر دھواں دھار تقریریں کرتے اور جلسے کے بعد پر امن طور پر منتشر ہو جاتے۔
ان دونوں مقامات کے بغل میں لاہور کا سب سے بڑا میو اسپتال بھی واقع ہے لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی مشتعل ہجوم نے اس طرف کا رخ بھی کیا ہو چہ جائیکہ ڈاکٹروں اور مریضوں پر حملہ ہی کر دیا جائے بلکہ اگر احتجاج میں اگر کوئی زخمی ہو جاتا تو ان کو طبی امداد میو اسپتال کی ایمرجنسی میں ہی ملتی تھی۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ سر گنگا رام اسپتال کا نام تبدیل کرنے کے لیے تحریک چل پڑی۔ تحریک میں شامل لوگوں نے لاہور کی مال روڈ پر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ احتجاج میں شامل مظاہرین جب بے قابو ہونے لگے تو پولیس سے تصادم میں کچھ مظاہرین زخمی ہو گئے جن کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سر گنگا رام اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس مظاہرے کے بعد نام تبدیل کرنے کے لیے چلائی گئی احتجاجی تحریک ختم ہو گئی مگرگنگا رام اسپتال آج بھی لاہوریوں کی خدمت کر رہا ہے۔
وکلاء اور ڈاکٹروں کی اس مڈبھیڑ میں قصور کس کا تھا، سوال یہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ چند سو وکلاء نے مسیحائی کے ادارے پر دھاوا کیوں بولا جہاں پر ہر امیر اور غریب کا یکساں علاج ہوتا ہے۔ غریب اور نادار مریضوں کے منہ سے آکسیجن کے ماسک اتارنا ان کی زندگی کی ڈور ختم کرنا تھا۔ ایک پڑھے لکھے مکتبہ فکر میں یکایک اتنی بے حسی کیوں عود کر آئی کہ ان کویہ احساس بھی نہ رہا کہ ان کے اس مکروہ فعل سے کسی مریض کی جان بھی جا سکتی ہے اور کئی جانیں چلی بھی گئیں ان کا حساب کون دے گا۔
جنگل کے معاشرے میں رہنے والے کڑی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ اب یہ دنیاوی منصفوں پر منحصر ہے کہ سانسوں کی ڈور سے آزاد ہونے والے بے کس مریض جو اس مکروہ فعل کے نتیجے میں اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں ان کو دنیاوی انصاف دیتے ہیں یا پھر وہ اللہ کے ہاں ہی اپنا مقدمہ پیش کریں جہاں سے ہر ایک کو انصاف ملتا ہے جہاں سب کا رتبہ برابر ہے اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔