جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی کے رکن نہ ہونے کے باوجود سیاسی محاذ کو گرم رکھے ہوئے ہیں اور قومی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں وہ اپنے اعلان کردہ حکومت مخالف مارچ کی تیاریاں زور شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور فی الحال کوئی بھی طاقت ان کو حکومت مخالف مارچ سے روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے بلکہ اب تو انھوں نے مارچ کی تاریخ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
محترم فضل الرحمٰن ایک مدت کے بعد اسمبلی کی سیاست سے باہر ہوئے ہیں لیکن قومی سیاست میں ان کا کردار اور ان کے ارادے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ حکومت مخالف سرگرمیاں جاری رکھیں گے چاہے کوئی اور سیاسی جماعت ان کا ساتھ دے یا نہ دے۔ وہ سیاست کو ایک نیا رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مجوزہ مارچ کے اعلان کے بعد شروع دن سے ہی وہ اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کی فکر میں ہیں لیکن ابھی تک وہ اس مجوزہ احتجاج کے لیے کسی بڑی جماعت کی علانیہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور ہماری سیاسی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے کچھ بعید نہیں کہ وہ عین موقع پر اس تحریک کا حصہ بن جائیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو پائے گا جب ان جماعتوں کو یہ یقین ہو جائے گا کہ مولانا کے اس احتجاجی پروگرام کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نکل سکتا ہے یعنی یہ احتجاج حکومت کی صفوں میں ہل چل مچا سکتا ہے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کی بات ہے تو اس کے رہنما آئے دن مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس تو کرتے ہیں لیکن وہ مولانا کے ساتھ اس طرح کے تعاون پر تیار نظر نہیں آتے جس کی مولانا کو ضرورت ہے۔ اگر نواز لیگ تعاون پر تیار ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ اس کی صورت کیا ہوگی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ وہ ایک طفیلی جماعت کے طور پر اس ممکنہ احتجاج میں شامل ہو کر اپنے وجود کو مزید کمزور کر دے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ وہ سیاسی مزدور بن کر مولانا کے پیچھے چلنا شروع کر دے۔
اس کے لیے ان کو کوئی راستہ نکالنا ہو گا تا کہ کسی بھی اتحاد میں یہ اپنی حیثیت اور رتبہ برقرار رکھتے ہوئے شامل ہوں۔ پیپلز پارٹی کو اپنے خدشات لاحق ہیں اور وہ فی الحال کسی بھی حکومت مخالف احتجاج کا حصہ بننے سے کنی کترا رہی ہے اوراس مارچ کی سیاسی و اخلاقی حمایت کی یقین دہانی کے باوجود حکومت کو مزید وقت دینے کے لیے تیار نظر آتی ہے اور ماورائے آئین کسی بھی سرگرمی کا حصہ نہیں بن رہی۔ اب یہ مولانا فضل الرحمن پر منحصر ہے کہ وہ ان دونوں بڑی جماعتوں کو کس طرح اپنے احتجاجی پروگرام میں شامل کرتے ہیں یا پھر ان کے بغیر ہی اسلام آباد پر چڑھائی کرتے ہیں۔
اگر ہمارے ہاں سیاست کا کوئی مستقبل نظر آرہا ہے تو وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بغیر ہے فی الحال ان کا مستقبل کی سیاست میں کوئی فعال کردار نظر نہیں آرہا۔ بعض لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ان دونوں پارٹیوں پر عوام فی الحال بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہیں اور کوئی سیاسی پارٹی ایسی نظر نہیں آتی جس کو عوام فوراً قبول کر لیں اور حکومت مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں۔
تحریک انصاف حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک ان کا ووٹر اچھے دنوں کی آس وامید میں اس کے ساتھ کھڑا ہے لیکن کہ اگر جلد معیشت کے حالات بہتر نہ ہوئے تو پھر تحریک کے ووٹر اور حمایتی اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ اس کے علاوہ اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے اصلی سربراہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں لہٰذا وہ دونوں اپوزیشن کی سیاست میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ دونوں حضرات اپنے پیغامبروں کے ذریعے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں جس میں یہ دونوں کامیاب جا رہے ہیں۔ حکومتی وزیروں کا یہ دعویٰ ہے کہ اپوزیشن سے ان کے معاملات طے پا چکے ہیں اور اب ستے خیراں ہی خیراں ہیں۔ حکومت کا یہ دعویٰ اگر درست ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے حکومت مخالف کسی بھی سرگرمی کا حصہ بننے سے معذرت کر لی ہے حکومتی دعوے کے بارے میں اگلے چند روز میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی کہ یہ دعویٰ درست ہے یا اس میں بھی کوئی سیاسی رمز پوشیدہ تھی۔
مجھے پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم جناب غلام مصطفی جتوئی مرحوم کی بات یاد آرہی ہے وہ کہتے تھے کہ پاکستان نہ تو ناکام ریاست ہے نہ اس کا سسٹم فیل ہے بلکہ اس کی لیڈر شپ فیل ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں حالات کی سنگینی سے ہر کوئی پریشان ہے اگر کسی کو پریشانی لاحق نہیں تو یہ ہماری لیڈر شپ ہے جو کشمیر جیسے اہم مسئلہ کے بیچوں بیچ حکومت مخالف احتجاج کا پروگرام بنا رہی ہے۔
ملک کے ہر محاذ پر گرمی ہے لیکن ملک کے اندر ہماری سیاسی لیڈر شپ ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنی دھما چوکڑی سجانے میں مصروف ہے۔ ہماری لیڈر شپ کی یہ خامی ہے کہ اس نے کبھی عوام کے لیے کوئی واضح سمت متعین نہیں کی کوئی ایسا لائحہ عمل وضع نہیں کیا جس میں عوام کو کوئی راستہ دکھائی دے۔ اگر کبھی کوئی سمت متعین کی بھی ہے تو ایسی سمت جس کے تمام رستے ان کی جانب ہی جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اپوزیشن کے حکومت مخالف دھرنوں میں شریک ہونے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
میں اپنی اخباری زندگی میں اپوزیشن لیڈروں کے سیکڑوں اجتماع دیکھ چکا ہوں۔ ملکی حالات سے زیادہ اپوزیشن رہنماؤں کے اپنے حالات کی سنگینی ان لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ہے اور جب ان اجتماعوں سے کوئی صورت نکلتی ہے تو ان میں سے برسراقتدارآنے والا کوئی لیڈر حالات کو مزید سنگین بنانا شروع کر دیتا ہے اور اپوزیشن پھر سے اپنا پراناکام کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس طرح یہ سلسلہ اب تک چلتا آرہا ہے۔ اپوزیشن پر ایک شعر صادق آتا ہے۔
مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکاتے چلے جا