پہلے ہی کون سی گنجائش باقی رہ گئی تھی کہ ایک اور بڑی مصیبت کو برداشت کیا جا سکتا ہے، یہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ کتنے پاکستانی دنیا میں پھیلی وباء سے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ جدید دنیا کی طرح ہمارے پاس تو کوئی ایسا نظام بھی موجود نہیں ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس قدرتی وباء نے کس کس کو چھوا ہے۔
ہم پاکستانیوں کی زندگیاں ایک کھلونا بن گئی ہیں، کوئی ٹریفک کے حادثے میں زندگی ہار رہا ہے تو کوئی باہمی لڑائیوں میں مر رہا ہے، کوئی مناسب علاج نہ ملنے سے مر رہا ہے تو کوئی خود کشی کر رہا ہے۔ زندگی شاید اتنی مشکل یا بے سود اور بے معنی ہو گئی ہے کہ اب اس کے خاتمے پر کوئی آنسو بھی مشکل سے بہاتا ہے کہ اس کا باقی نہ رہنا شاید اس کے باقی رہنے سے زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے۔
ہم پاکستانی ایک دکھ بھری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جس میں زندگی کے سب سے بڑے دکھ یعنی غربت اور بد امنی وافر ہیں، روز مرہ حالات کی تلخی کو ذہن میں رکھ کر کبھی تو جی چاہتا ہے کہ کسی راہ چلتے کو روک کر پوچھیں کہ بھائی تم چلتی پھرتی لاش تو نہیں ہو لیکن پھر سوچ کر کہ وہ اگر یہی سوال آپ سے کر دے تو آپ کا جواب کیا ہو گا اور جو جواب آپ کا ہو گا، وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ پھر میرا جواب بھی یہی ہے۔
آج کل کے دور میں اگر کسی کو دو وقت کی روٹی مل بھی رہی ہے تو وہ زندگی کے تحفظ سے محروم ہے اور اسے کل کی خبر نہیں کہ اس کا جو آج ہے اور وہ کیسا ہے، کل یہ بھی ہو گا یا نہیں، بے یقینی کی ایسی انفرادی کیفیت صرف افراد تک محدود نہیں رہتی، یہ آگے بڑھتی ہے اور ملک کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
یہ ملک جو ہمارا گھر ہے جو ہماری پناہ گاہ ہے جب اس کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں گے تو اس میں رہنے سے کیسے مطمئن ہوں گے۔ غیر یقینی، بے اطمینانی اور خوفزدی کی یہ کیفیت ایک قومی مزاج اور قومی نفسیات بن چکی ہے مثلاً میں اپنے آپ کو پاکستان کے متوسط طبقے سے سمجھتا ہوں جو آرام سے دو وقت کی روٹی کھا رہا ہے لیکن میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے اپنی اس معاشی حیثیت پر ذرا بھر یقین نہیں ہے اور ناگہانی آفات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ آناً فاناً کسی بھی وقت آپ کا سب کچھ فنا ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین کورونا وباء کو ہی دیکھ لیں، اس وباء نے دنیا بھر کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس وباء کی وجہ سے دنیا جس کو ہم ایک گاؤں کہتے تھے یعنی دنیا ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئی تھی کہ ایک بٹن دباتے ہی آپ کا رابطہ دنیا کے ایک سرے پر بیٹھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے اپنے کسی دوست یا عزیز سے ہو جاتا تھا، اب وہی قریبی رابطہ دوری میں بدل رہا ہے۔
گو کہ ابھی بٹن کا رابطہ موجود ہے لیکن خوفزدگی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں نے اپنے آپ کو دوسری دنیا سے الگ تھلگ کر لیا ہے، ان ملکوں میں نہ کوئی جا سکتا ہے اور نہ باہر نکل سکتا ہے۔ گزشتہ روز اسپین سے ایک کرم فرما کا فون آیا، وہ بتا رہے تھے کہ کورونا وباء کی وجہ سے اسپین کی حکومت نے ان کو گھر میں قید کر رکھا ہے، گھر سے باہر نکلنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، صرف بیماری یا کسی اشد ضرورت کے تحت ہی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔
راشن کا بندو بست کر رکھا ہے، دفاتر اور بینک بند ہیں البتہ بڑے اسٹوروں پرعوامی ضرورت کی اشیاء دستیاب ہیں، حکومت نے اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے عوام کے بینک اکاؤنٹ میں معقول رقم جمع کر ا دی ہے تا کہ وہ اسے اپنی خوراک کی خریداری کے لیے استعمال کر سکیں کیونکہ روزگار کے تمام ذرایع بند کر دیے گئے ہیں اور وجہ ایک ہی ہے کہ دنیا میں پھیلنے والی وباء نے بڑی بڑی طاقتوں کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔
بے روزگاری کا عفریت دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے، غیر یقینی کی کیفیت ہے اور ہر کوئی خوفزدہ نظر آتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اس وباء کی وجہ سے جذباتی صدمہ بھی پہنچا ہے۔ میں جب گھر میں بیٹھ کر مکہ مدینہ کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھتا ہوں جن میں مکہ میں مطاف خالی دکھائی دیتا ہے اور میرے حضور ﷺ کے گھر میں سلام پیش کرنے والوں پر عارضی پابندی ہے تو میرے دل و دماغ کی حالت بیان سے باہر ہو جاتی ہے۔
ناگہانی آفات انسانی زندگی کا حصہ ہیں لیکن یہ اس قدر کم رہی ہیں کہ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ فلاں زمانے میں میں فلاں آفت ٹوٹ پڑی تھی اور یہ جو کورونا کی شکل میں نئی وباء دنیا پرٹوٹ پڑی ہے اس نے تو تباہی اور ویرانی کی بادشاہت قائم کر دی ہے اور کچھ لوگوں کو ایسے محسوس ہو تا ہے جیسے زمین اور ملک سے برکت اٹھ گئی ہو۔ اس برکت کے اٹھانے میں کسی اور کا کوئی کردار نہیں بلکہ ہم دنیا کے لوگ ہی اس کے ذمے دار ہیں جنھوں نے اپنے اعمال اور کردار سے اس بے برکتی میں حصہ ڈالا ہے۔
ہم نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور دھوکے فراڈ سے زندگی گزارنے لگے، زندگی کے ان ضابطوں اور اصولوں سے دور ہو گئے جو خاص طور پر ہم مسلمانوں کے زندگی گزارنے کے لیے ہماری الہامی کتاب قرآن کریم میں وضح کر دیے گئے ہیں لیکن ہم نے اس مقدس کتاب کو مخملی غلافوں میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھ کر اپنے آپ کو اس کی رہنمائی سے دور کر دیا۔ اﷲ کے قوانین سے دوری نے ہمیں آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ہم ایک قدرتی وباء کی وجہ سے اپنے آپ کو قید کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، دنیا کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور اپنے آپ کو طاقتور کہلانے کے نشے میں سرشار بھی گوشہ نشین زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یہ سب کیوں ہوا، کیسے ہوا، ابھی تک سائنسی علوم کے ماہرین اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکے لیکن بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قدرتی آفات کا وقوع پذیر ہونا اﷲ تبار ک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اعمال پر اظہار ناراضگی ہے۔ کائنات کے نظام میں اﷲ تعالیٰ کے ضابطے اٹل اور ناقابل تبدیلی ہیں اور قرآن میں ارشاد ہے کہ جو مصیبت تم پر آتی ہے، وہ تمہارے اعمال کے سبب آتی ہے اور بہت سی باتوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ ہمیں قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کی معافی مانگنی چاہیے کیونکہ وہی ایک در ہے جہاں سے ہر ایک کومعافی مل جاتی ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنے رب کو راضی کریں۔