Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Shaheed Betay

    Shaheed Betay

    یہ بات کہہ دینا اور لکھ دینی آسان ہے، کسی کا جواں بیٹا جدا ہو جائے تو اس کے والدین اس کی بہنوں سے اور بھائیوں سے کوئی پوچھے۔ حضورﷺ کا بیٹا فوت ہوا تو آپﷺ کے آنسو نکل آئے۔ چچاحضرت حمزہؓ شہید ہوئے تو حضورﷺ نے ماتم کا انداز اختیار کیا اور شدت غم میں فرمایا کہ میرے چچا کو کون روئے گا۔

    اسے میری کمزوری سمجھئے، بزدلی یا جذبائیت کہ میں اپنے غازیوں، شہیدوں کا ذکر نہیں سن سکتا۔ ان بلند مرتبت خوش نصیبوں کا ذکر انسانی جذبات کو ناقابل برداشت حد تک گداز کر دیتا ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کر لینا مضبوط دل والوں کاکام ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں اس لیے جب بھی ان لوگوں کے ذکر اذکار کی کوئی مجلس آراستہ ہوتی ہے میں کوئی بہانہ بنا لیتا ہوں اور اس طرح اپنی کمزوری چھپا لیتا ہوں۔ اس سال 6 ستمبر کو یکجہتی کشمیر کے ساتھ ساتھ چلو شہید کے گھر کے خوبصورت سلوگن کے تحت منایا گیا۔

    ہم جس خطے میں زندگی میں بسر کر رہے ہیں یہاں پر حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر ہماری سیکیورٹی فورسز ان حالات کو کنٹرول نہ کریں تو شاید ہم یہاں زندگی بسر نہ کر سکیں، کسی اور جگہ ہجرت کر جائیں لیکن یہ ہماری سیکیورٹی فورسز ہیں جن کی بدولت ہم اپنے وطن میں محفوظ زندگی گزار رہے ہیں اور ہماری یہ زندگی سیکیورٹی فورسز کے جوان اپنی جانوں کے نذرانے دے کر محفوظ بنا رہے ہیں۔

    فوج میں غازیوں کی اگر کمی نہیں تو شہیدوں کی بھی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے نوجوان اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اس قوم کو زندہ رکھنے اور اس میں نئی روح پھونکنے میں ان شہیدوں کا بہت بڑا کردار ہے جو اپنے وطن کے لیے قربانی پیش کر تے ہیں اور یوں ہمارے بدعنوان اور ملک و قوم کے دشمنوں کو شرم دلانے کی عبث کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مارد وطن کی حفاظت اور آبرو کے لیے دی گئی قربانیوں کا کوئی شمار اور بدلہ نہیں دیا جا سکتا، ہاں ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ان شہیدوں کی برکتوںکو سمیٹنے کے لیے ان کے مزاروں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیں۔

    مجھے گزشتہ روزپاک فوج کے دو شہدا کے خاندانوںسے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں کسی حوالے سے خوش نصیب امتیاز سرور صاحب کے گھر پہنچ گیا جو کیپٹن سلمان سرور شہید کے والد ہیں۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت کے بعد بھی وہ مجھے اتنے بہادر اور مضبوط لگے کہ میں ان کی جرات کو سلام پیش کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ بولتے رہے میں سنتا رہا۔ میںجو روز لفظوں سے کھیلتا ہوں میرے پا س کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جو میں اس خوش نصیب شخص کے گوش گزار کر سکتا۔

    میں مودبانہ ان کے سامنے بیٹھا رہا۔ وہ پاکستان کی بات کرتے رہے اور میںپاکستان کا ایک شہری جس کے لیے انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دی، ان کی خوبصورت گفتگو سنتا رہا۔ ان کے منہ سے پھول جھڑتے رہے اور میں ان پھولوں کو چننے کی کوشش کرتا رہا۔ میری یہ خواہش تھی کہ ان کے لب میرے لیے دعا کریں اور میں شہید کے والد کی دعائوں کی برکتیں سمیٹ لوں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی ان کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ ایک خوبصورت نوجوان ہاتھوں میں پھول لیے ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔

    امتیاز سرور نے جذباتی ہو کر اسے گلے لگایا اور بتانے لگے کہ یہ نوجوان کیپٹن جواد چیمہ شہید کے بھائی ہیں۔ اس نوجوان نے بتایا کہ ان کے بھائی کیپٹن جواد چیمہ شہید کی پیدائش سعودی عرب میں ہوئی۔ ان کی والدہ اپنے شیر خوار بچے کو گود میں اٹھا کر حرم پاک لے گئیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کے بیٹے کی زندگی تاقیامت ہو۔ کیپٹن جواد کے بھائی کہنے لگے کہ جب شہید بھائی کی میت گھر آئی تو میری والدہ نے کہا کہ میں نے تو اپنے رب سے اپنے بیٹے کی قیامت تک دراز عمری کی دعا مانگی تھی تو میرے والد صاحب کا جواب تھا کہ تمہاری دعا ہی تو قبول ہو گئی کہ جواد شہید ہو گیا اور شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

    اتنی خوبصورت باتیں ان شہیدوں کے ساتھ جڑی ہیں، جی کرتا ہے کہ ان کو سنتے رہیں اور یہ کبھی ختم نہ ہوں۔ شہدا کے والدین بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنا مشن بنا لیا ہے پاکستان کے کسی کونے میں بھی جب کوئی شہید ہوتا ہے تو وہ سب مل کر اس کے گھر جاتے ہیں اور اس خوش قسمت گھر انے کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔

    پاک وطن کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں جہاں پر ہماری فوج کے جوان اپنی زندگیاں ملک کی حفاظت کے لیے قربان کر رہے ہیں، وہیں پر اس ملک میں ایسے والدین بھی موجود ہیں جو خالصتاً اسلام کی جنگ میں اپنے بیٹوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ایسے والدین کی قسمت بھی جاگ اٹھتی ہے اور وہ شہدا کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔

    ہمارے ملک میں انھی والدین نے اپنے نوجوان بیٹے افغانستان اور کشمیر میں کفار کے خلاف محاذ جنگ میں جہاد اسلام کے نام پر قربان کر دئے۔ جماعت اسلامی سے اس کا آغاز ہوا اور بعد میں دوسری جماعتوں کے نوجوان بھی ان شہداء میں شامل ہو گئے۔ میرے گائوں کے ہر قبرستان میں شہدا کی قبروں پر لہراتے سبز ہلالی پرچم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کے کونے کونے میں اپنے وطن کی حفاظت کرنے والے بیٹے موجود ہیں۔ ہمیں باوضو ہو کر اور کام و دہن کو خوشبوئوںسے مہکا کر ان شہداء کے مبارک نام لینے چاہئیں۔ ان شہید بیٹوں کی قربانیوں کا ہم کوئی صلہ نہیں دے سکتے، صرف دعا کر سکتے ہیں۔