پاکستان میں حکومتیں آتی ہیں کچھ وقت کے لیے کمائی کرتی ہیں اور پھر اپنی کسی حماقت کی وجہ سے چلی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی کو گولی لگتی ہے، کسی کو پھانسی ہوتی ہے، کسی کو کوئی حادثہ اور کوئی اپنے بد تر طرز حکومت کی وجہ سے عوام کے دلوں سے نکل کر حکومت سے اتر جاتا ہے۔
حکومتوں کے آنے جانے کے اس تکلیف دہ عمل میں عوام کی حالت پہلے سے بد تر ہوتی ہے اور ہر نئی حکومت کے آنے کے بعد عوام پچھلی حکومت کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ سلسلہ مدتوں سے چل رہا ہے کوئی حکومت جب نئی نئی آتی ہے تو شوق حکمرانی میں کوئی اچھا کام بھی کر جاتی ہے اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کہ کسی حکومت کے آتے ہی اس سے کوئی کام کرا لیا جائے ورنہ کچھ وقت کے بعد وہ حکمرانی کے سحر میں سوائے اپنے سب کچھ بھول جاتی ہے۔
ایسا ہی ہوشیاری کاکام ہمارے ضلع خوشاب کے صوبائی اسمبلی کے نمائندے اور میرے بھتیجے فتح خالق بندیال نے کیا اور حکومت کے آغاز میں ہی اپنے حلقے کے لیے ترقیاتی کام منظور کرا لیے اور سب سے بڑا کام خوشاب سے سکیسر کی خستہ حال سڑک کا تھا جس کی منظوری ہمارے درویش وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے شوق حکمرانی میں فوراً دے دی اور اب اس اہم شاہراہ کا کام تیزی سے پایہ تکمیل ہے۔
ہم خوشاب والوں کو تو وزیر اعلیٰ سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ ہمارے ضلع میں تو کام ہو رہے ہیں جو گزشتہ دس برسوں سے التوا کا شکار تھے لہذا اگر کسی کو عثمان بزادر کی ملنساری اور شرافت پسند نہیں تو وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن وسائل کے مطابق ترقیاتی کام تو ابھی بھی جاری ہیں البتہ ہمارے ضلع خوشاب کو شائد اپنی پسماندگی کی وجہ سے صوبائی وزارت جیسے اہم عہدے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
ہماری موجودہ حکومت زبردست ارادوں کے ساتھ قائم ہوئی ہے بلکہ ان حکمرانوں کے مطابق تو یہ پاکستان کی آخری حکومت ہے کیونکہ وہ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کو بچانے کا یہ آخری موقع ہے اور انھوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے۔ ہر حکومت نے اپنی آمد پر بڑے بڑے اعلان کیے ہیں اور ہر حکومت پاکستان بچانے کی دعویدار رہی ہے، ایساہی اعلان موجودہ حکمرانوں نے بھی کیا ہے۔ بہر کیف حکمران جس ہمت اور زبردست عمل کا اظہار کر رہے ہیں اس میں ان کی مدد کرنی چاہیے بلکہ ان کے اسی جوش و خروش کے عالم میں کوئی ایسا کام کرا لینا چاہیے کہ اگر کسی دوسری حکومت کوآنے کا موقع مل جائے تو یہ زندہ رہیں یا نہ رہیں ان کا یہ کام زندہ رہے۔ ایک ایسے ہی زندہ رہنے والے بنیادی کام کا مشورہ بہت جلد دے دیا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران اخبارات زیادہ نہیں پڑھتے یا ان کو اردو سمجھ نہیں آتی۔ کئی کالموں میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ پانی ہے اور اس کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم انتہائی ضروری ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کے آبائی ضلع میانوالی میں ہی کالاباغ کا علاقہ ہے اور کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور افادیت کا ذکر کرنا بے وقوفی ہو گی کیونکہ اس کے بارے میں جتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے وہ کافی سے زیادہ ہے، بس اب عمل کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کی بقاء کے اس تاریخی کام کو کون سر انجام دیتا ہے اور اپنا تاریخ میں درج کراتا ہے۔
حکومتوںکے آنے جانے سے شروع ہونے والی بات ادھر اُ دھر نکل گئی، میں عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ حکمران کو عوام میں اپنی افادیت اور ان تک ایک اچھی حکومت کے ثمرات پہنچانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو عوام کی مشکلات کم کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں لیکن مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ابھی تک موجودہ حکومت نے عوام کی زندگی میں مشکلات کی کمی کے لیے کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا جس سے یہ تاثر مضبوط ہو کہ پاکستان کے عوام مدینہ کی فلاحی ریاست کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایک برس سے زیادہ عمر کی حکومت میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، غریب آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کا مارا ہوا تھا اس کی مشکلیں اور بڑھ گئی ہیں، وہ روٹی کپڑا مکان کے دلفریب نعرے سے جان چھڑا کر مدینہ کی فلاحی ریاست کے خواب دیکھ رہا تھا جو ابھی تک خواب ہی ہیں اور ان کی تعبیر دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ تحریک انصاف نے گوناں گوں مسائل کے ساتھ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تھی لیکن ملک کی معاشی مشکلات ایسی ہیں جو راتوں رات حل نہیں ہو سکتیں، ان کے حل کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے اور اس جانب حکومت تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔
پاکستان کے عوام اپنی حکومت کی معاشی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں اور وہ جیسے تیسے معاشی بدحالی میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اگر عوام کی معاشی مشکلات میں بوجہ کمی نہیں کر سکتے تو ان کو ایک اچھی انتظامی حکومت تو دے سکتے ہیں جس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اس کے لیے اچھی انتظامی صلاحیتیوں کا حامل ہونا ضروری ہے تا کہ حکومت کی افسر شاہی وہ کام کرے جو عوام کی بھلائی کے لیے ہوں لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ اگر کسی افسر نے اچھا کام کیا ہے تو اس کو بھی اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، ان حالات میں افسر شاہی سے اگر گلہ کیا جائے تو وہ بے جا ہوگا کیونکہ اچھے کاموں پر اگر ان کی تعریف نہ بھی کی جائے تو کوئی بات نہیں لیکن اچھے کاموں پر اگر ان کی سرزنش کی جائے گی تو اصل حکمرانوں میں بے دلی بڑھے گی اور سیاسی حکمرانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا اس لیے ہمارے درویش صفت وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ اپنے صوبے کی افسر شاہی کو اعتماد دیں اور افسر شاہی سے اگر کوئی دوریاں ہیں تو ان کو ختم کریں تا کہ ان دوریوں سے جو اضطراب پیدا ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔
ملک کو معاشی اور سیاسی اصلاحات کی بیک وقت ضرورت ہے، دونوں ایک دوسری کی معاون ثابت ہوں گی کیونکہ دونوں شعبوں کی مشکلات بھی ایک دوسرے کے بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ معاشی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں، سیاسی بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی کام کرنا ضروری ہے، اس کے لیے سیاسی فہم و فراست والے لوگوں کی ضرورت ہے جن کی ہمارے ہاں بدقسمتی سے شدید قلت ہے۔