یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ اس حکومت میں وہ کون سی ایسی صاحب اختیار اور اعتبار شخصیت ہے جس کی توجہ ان کھلے گھپلوں کی طرف دلائی جائے لیکن عمران خان کے پاس وقت ہو یا نہ ہو اور ان تک کوئی بات پہنچے یا نہ پہنچے بہر حال مخاطب تو انھی کو ہی کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے سامنے صرف وہی ہیں جو صاحب اختیار بھی سمجھے جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو ان پر اعتبار بھی ہے کیونکہ موجودہ حکومت انھی کے دم قدم سے آباد ہے ورنہ ان کے ساتھیوں کو تو ہم پہلے بھی کئی حکومتوں میں دیکھ چکے ہیں۔
ایک طرف خودکشیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ہمارے ملک میں ایسے "غربا اور مساکین" بھی موجود ہیں جو حکومت سے ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اوراپنے آپ کوان غرباء اور مساکین میں شامل بھی رکھتے ہیں جو حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں اور حکومت کے امدادی پروگرام سے ماہانہ چند ہزار روپے کی وصولی کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
یہ وہ غربا اور مساکین ہیں جو ہماری افسر شاہی کا حصہ ہیں۔ اس بات کا انکشاف حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین جن میں ایک معقول تعداد بڑے عہدوں پر متمکن افسروں کی بھی ہے جو حکومت کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ماہانہ ہزار روپے بھی وصول کر نے سے باز نہیں آئے، یہ ایک ایسی امداد ہے جو حکومت کی جانب ایسے غربا اور مساکین میں ماہانہ کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہے جن کے روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں یا پھر وہ عمر رسیدہ ہیں اور کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بیمار ہیں یا معذور ہیں یعنی یہ امداد خالصتاً مستحق لوگوں کے لیے جاری کی جاتی ہے۔
مگر ہمارے سرکاری افسر اتنے بے رحم اور بے شرم ہیں کہ ان کو غریبوں کے اس امدادی پروگرام پر بھی رحم نہیں آیا اور انھوں نے اس میں سے بھی حصہ وصول کرنا اپنا حق سمجھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اتنے بے حس اور بے غیرت کیوں ہو گئے ہیں حالانکہ بتایا یہ جاتا ہے کہ باحیثیت لوگ پاکستان میں ٹیکس سے زیادہ خیرات، صدقات اور زکوۃ دیتے ہیں۔ صدقہ اور زکوۃ اپنے ہاتھ سے دینا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے، حکومت بینک اکاؤنٹ سے بھی زکوۃ کٹوتی کر لیتی ہے لیکن بینکوں میں قابل زکوۃ رقم رکھنے والے باحیثیت افراد کی اکثریت نے بینکوں کو حلفیہ بیان دے رکھا ہے کہ وہ زکوۃ خود تقسیم کریں گے۔
ا س کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ بینکوں کے ذریعے زکوۃ کٹوتی کی رقم حکومتی خزانے میں جمع ہوتی ہے اور پھر حکومت کی جانب سے زکوۃ کے مستحقین تک یہ رقم پہنچائی جاتی ہے لیکن مدت ہوئی حکومتوں پر ہمارا اعتبار اٹھ چکا اور اپنے حصے کی زکوۃ ہم خود اپنے ہاتھ سے دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ حکومتی زکوۃ یا امداد کے ساتھ تو یہی سلوک ہوتا ہے جو سیکڑوں افسران نے بینظیر امدادی اسکیم میں اپنی جیبیں بھر کرکیا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ افسر شاہی کا قصور یہ ہے کہ اسے ہر حکمران نے اتنی بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ وہ اب کچھ تھک ہی گئی ہے اور اس مسلسل جاری مقابلے میں اس کی ہمتیں کمزور پڑ گئی ہیں۔ ورنہ یہی بیوروکریسی تھی جس نے اس بے سروپا ملک پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا تھا، پاکستان کے ابتدائی نازک وقت کے افسروں نے جتنی محنت کی اور جس خوبصورت اور مفید انداز میں اپنی ذہانت اور تجربے کو استعمال کیا، اس پر کسی کو تفصیل سے لکھنا چاہیے۔ کیا خوبصورت اور خوب سیرت افسر تھے جنھوں نے حقیقی معنوں میں پاکستان کو ایک کامیاب ملک بنایا ورنہ ہمارے دشمنوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ نو زائیدہ ریاست زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔
وقت بدل گیا پرانے افسروں کی صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ آپ نے بعض اچھے افسروں کی یہ تعریف سنی ہو گی کہ ان کی میز پر کوئی فائل دکھائی نہیں دیتی جو فائل آتی ہے فوراً ہی کارروائی کر کے اس کو متعلقہ آدمی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست افسر تھے مرحوم مظہر منیر جب میں پہلی بار ان سے ملنے جانے لگا تو مجھے میرے سفارشی نے بتایا کہ جس افسر کی میز بالکل صاف ہو اور اس پر کوئی فائل موجود نہ ہو اس کا نام مظہر منیر ہے۔
میرے ایک اور مہربان دوست مرحوم ایس کے محمود کی میز بھی صاف رہتی تھی اور بھی ایسے افسر ہوں گے جو کام کو فوراً نپٹانے اور فیصلے کی قوت رکھتے ہوں گے، میرے مشاہدے میں ایسے چند ہی لوگ آئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں افسروں سے ڈرتا ہوں اور ان سے ملنے نہیں جاتا۔ افسروں میں وقت کے ساتھ ساتھ بلاشبہ نیا خون بھی شامل ہوتا رہتا ہے جو تیزی کے ساتھ کام شروع کرتا ہے مگر وقت کے ساتھ وہ بھی تھک جاتا ہے اور اس کی میز پر فائلوں کے ڈھیر میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ افسر شاہی سے مجھے ایک مستقل شکایت رہتی ہے کہ اس کے مزاج میں عوام سے ہمدردی نہیں ہوتی اور ہر کام سے انکار ان کی عادت ہی بن جاتی ہے، بڑے افسروں کی یہ عادت نیچے تک سرائیت کر جاتی ہے۔
اس وقت مجھے بیوروکرسی سے بہت شکوہ ہے، ریاست کے اس نہایت اہم ستون کو عوام کے ساتھ اپنے رشتے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے ہی عملاً ملک چلانا ہوتا ہے اور ملک چلانے کا مطلب حکومت کی پالیسیوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے جو حکومت عوام کے لیے بناتی ہے۔ ہماری بیوروکریسی نے انھی پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر ہوا یہ کہ انھوں نے ان پالیسیوں میں سے اپنا مطلب نکال لیا اور عوام کی بھلائی کے کاموں میں سے بھی اپنا حصہ وصول کر لیا۔ بیورو کرسی میں خرابیاں اتنی بڑھ گئی ہیں اور حالات نے اتنی بڑھا دی ہیں کہ اس کو درست کون کرے، کیا اس کو خراب کرنے والے اس کو درست کریں گے۔ ہمارے افسروں کو کوئی ایسی پالیسی بھی وضح کرنی چاہیے جس میں عوام کے لیے کچھ آسانیاں ہوں کیونکہ یہ عوام ہی ہیں جو ان پالیسیوں سے مستفید ہوتے ہیں یا ان کی زد میں آتے ہیں۔