کوئی بھی پاکستانی یہ اعتراف نہیں کرے گا بلکہ اس پر ناراض بھی ہو گا کہ ہم امریکا کو اپنا "خدا" تسلیم کرتے ہیں۔ ایک زمینی خدا جو ہماری تقدیر کو بگاڑتا یا سنوارتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ امریکا ہماری حکومتوں کو بناتا اور ختم کرتا رہا ہے۔ ہماری معیشت کو تہہ و بالاکرتا یا سنوارتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا حقہ پانی بند کر سکتا ہے اور پھر کسی بات پر خوش ہو کر کھول سکتا ہے۔
جب چاہتا ہے اپنے کسی دشمن پر حملہ کرنے کے لیے ہماری سر زمین اور پانیوں کو استعمال کرتا ہے۔ جب کسی پاکستانی پر اسے غصہ آ جاتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر اس کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں اور اگر کسی کو نہیں پیش کرتے تو وہ اس کوخود ہی اٹھا لیتا ہے۔ وہ ہم سے کسی کے خلاف جنگیں کراتا اور پھر جب جی چاہے صلح کرا دیتا ہے۔
ہمارے ہاں اپنے کئی دفاتر کھول لیتا ہے اور اس طرح ہماری نگرانی کرتا ہے۔ پہلے ہمیں اپنے اسلحہ پر لگاتا ہے اور پھر نہ صرف اسلحہ کی فروخت سے انکار کر دیتا ہے بلکہ اس کی خریداری کی مد میں پیشگی اد اکی گئی رقم بھی واپس کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ غرض "میں تیرا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا " والا معاملہ ہے اور ہم اس ذوق اطاعت میں بسر و چشم امریکا کے پاکستان میں سفارتی نمایندے کو "وائسرائے" کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
ملک میں جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو ہم اس کے پیچھے امریکی ہاتھ کی کارفرمائی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر وقت اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں اس وقت امریکا کی پالیسی کیا ہے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہاں وہی ہو گا جو امریکا چاہے گا۔ یہ وہ سوچ ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں روز اول سے موجود ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پختگی آتی گئی۔
امریکا کی زمینی خدائی کے بارے میں مختصراً جو کچھ عرض کیا ہے، یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن میں چونکہ ایک مسلمان ہوں اور اس ملک پاکستان اور پوری کائنات کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ملکیت تصور کرتا ہوں، اس لیے کبھی کبھار قدرت کی کرشمہ سازیوں پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔ میرے ایک دوست نے کل ملاقات میں اپنی رواں دواں گفتگو میں کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اعتراف نہ کریں تو کیا کریں، کل تک ملک کے مختار کل آج بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ حکیمانہ جملہ سن کر میں اپنے رب کی عظمت کے اعتراف میں گم ہو گیا۔ پیغمبروں نے ہمیشہ کہا، یہ ملک کس کا ہے، میرے رب کا واحد ملک ہے۔
ہم مسلمانوں کو پہلا سبق توحید کا دیا گیا جسے فرقہ پرست مولویوں نے کچھ اور بنا دیا لیکن اقبال نے اسے یوں بیان کیا،
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مگر ہم مسلمانوں نے خدا کی زمین پر بے شمار خدا بنا لیے، جن میں آج سب سے بڑا خدا امریکا ہے، کل برطانیہ تھا اور آنے والے کل کو کوئی اور ہو گاکیونکہ ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اﷲ دنوں کو بدلتا رہتا ہے۔ جاپان کے بعد اب چین آج کی دنیا کی معیشت کا خدا سمجھا جا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی جب ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کے صدر کے منہ پر افغانستان میں ان کی ناکامی کا برملا اظہار کیا۔ یہی حق بات کہنے کا وہ وصف ہے جو کسی مسلمان کو دوسرے انسانوں سے ممتاز بناتا ہے۔ ہمارا تو کلمہ اقرار سے شروع ہوتا ہے اور اقرار پر ختم ہوتا ہے اور یہ اقرار ہے، خدا کی واحد خدائی کا۔ انسانوں کی طاقت ان کے جسموں میں نہیں ان کے ایمان اور نظریئے میں ہوتی ہے۔
کشمیریوں کو پورے ہندوستان میں کمزوری اوربزدلی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور لطیفے مشہور تھے، آج وہی کشمیری یکا یک اتنے بہادر ہو گئے ہیں کہ دنیا ان کی شجاعت پر حیرت زدہ ہے۔ دنیا میں آزادی کی ہر تحریک کو کسی نظریئے سے طاقت ملی، آج ہم امریکا تو کجا عام ملکوں کے مقابلے میں بھی کمزور ہیں اور یوں محسوس کرتے ہیں کہ نہ جانے ہمارا کیا ہو گا۔
ہماری یہ حالت ہمارے بد کردار اور غدارحکمرانوں نے بنائی ہے۔ ہم تعلیم، سائنسی ترقی اور جدید علوم سے محروم کر دیے گئے۔ ہمارے دلوں میں ہمارے وجود کے بارے میں شک بھر دیے گئے۔ یہ دھوکے باز جہاں بھی ہیں عیش کر رہے ہیں اور ہم بھوکوں مر رہے ہیں مگر مسلمان کبھی مرتا نہیں ہے۔ ایمان اور یقین کی چنگاری زندہ رہتی ہے۔ امریکا بڑا رہے یا نہ رہے پاکستان ضرور بڑا بنے گا۔