لاک ڈائون میں 9مئی تک توسیع کر دی گئی ہے۔ حضور اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ لاک ڈائون جیسا ہوا، اس سے تو نہ ہی کیا ہوتا۔ سوائے عوام کی پریشانیوں کو بڑھانے کے اور کیا فائدہ ہوا۔ سب کچھ کھلا ہے، صرف دفاتر اور ٹرانسپورٹ بند ہے اور اب اس پر توسیع کر دی گئی ہے۔ لاک ڈائون سچ مچ کا ہوا ہوتا تو مرض کے پھیلائو میں کمی لازم تھی لیکن ظل الٰہی تو پہلے ہی دن سے اس کے مخالف تھے۔ دل کی بات کئی بار زبان پر آئی اور اس ہفتے تو ذرا کھل کر۔ فرمایا، لاک ڈائون کرونا کو نہیں روک سکتا۔ یعنی ساری دنیا پاگل ہے اور پھر چین نے کیسے اسے روک لیا؟
ڈاکٹروں کی تنظیم نے کرونا کی گرفت کے مہیب پھیلائو سے ڈرایا ہے اور لاک ڈائون کو، اس کے ٹھیک معنوں میں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن حکمران جماعت نے ڈاکٹروں کے اس غیر سیاسی اظہارتشویش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ان ڈاکٹروں کو سندھ حکومت نے خرید رکھا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی پاکستان کے بارے میں ڈرائونی پیش گوئی کی ہے جسے قومی میڈیا نے شاید مثبت رپورٹنگ پر ڈاکٹرائن کے تحت نمایاں نہیں کیا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی آنے والے 15دنوں کو سخت قرار دے کر لاک ڈائون کی اہمیت واضح کی ہے لیکن حکومت کا رویہ کرونا وائرس کے بارے میں کچھ زیادہ ہی ہمدردانہ ہے۔ اب تو لگ رہا ہے، کرونا کا پھیلائو شاید دلی تمنا ہے۔ وہ کرونا کو روک نہیں رہی بلکہ یوں کہہ رہی ہے کہ عکنڈی ناں کھڑکا سوہنیا سدّھا اندر آ
مولانا صاحب کی طرف سے چھیڑی گئی، "اجڑے چمن" کی شغلیہ بحث میں حصہ لینے والوں کی بڑی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا صاحب کتنے "مقبول" ہیں اور ان دنوں تو ان کی ہر دلعزیزی کا خیر پوچھنا ہی کیا۔ بہرحال ایک صاحب کے تبصرے سے وہ بھولی بسری یادیں تازہ ہو گئیں جنہیں دسمبر کے مہینے میں آنا چاہئے تھا۔ فرمایا: اجڑا چمن تو بھٹو کو ورثے میں ملا تھا۔ بات سچ ہے لیکن اس سچ کے دامن میں کچھ اور سچائیاں بھی پوشیدہ (بلکہ عیاں) ہیں۔
بھٹو کو جو بچا کھچا پاکستان ورثے میں ملا اس کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ 65ء وار کی جنگ سے جو نقصان ہوا، ایک تو اس کا تسلسل، پھر سقوط ڈھاکہ، پاکستان ایسی حالت میں تھا کہ بچنا ایک معجزہ ہوتا۔ بھٹو صاحب نے آتے ہی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا، اس سے مصیبت کا حجم اور بڑھ گیا لیکن اس کے بعد بھٹو صاحب کی پالیسیوں نے ملک کی معیشت کو سہارا دیا۔ اسے سنبھالا اور بڑی حد تک مستحکم کیا۔ ایک طرف انہوں نے خلیجی ملکوں سے معاہدے کیے اور لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار دلوایا جس کے نتیجے میں گھروں کے اندر چراغ کی جگہ بجلی کے بلب نے لی لی۔ نیم پختہ مکانات میں رہنے والوں کا معیار زندگی اچانک بڑھا۔ دوسرے تعمیراتی کاموں کا آغاز بھی کیا، خصوصیت سے پاکستان سٹیل ملز قابل ذکر ہے جس نے ملکی معیشت کو بہت فائدہ پہنچایا۔ بعد میں ضیاء الحق آئے اور اس کی تباہی کے در پے ہوئے۔ تباہی کا یہ عمل ان کے جانشین پرویز مشرف نے تکمیل تک پہنچایا۔
پاکستان بننے کے بعد جو واحد ریلوے لائن، کوٹ ادو تاکشمور، بنی وہ بھٹو صاحب نے ہی بنوائی۔ اس سے نہ صرف معاشی فائدہ ہوا بلکہ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے درمیان مواصلاتی رابطہ مستحکم ہوا۔ ریلوے کا حصہ بھی ضیاء الحق، پرویز مشرف اور ان کے ساتھی نے پاک کر دیا۔ یہ سب سچ لیکن پاکستان "اجڑا چمن" بنا کیسے۔ چمن برباد یحییٰ خان نے کیا لیکن اس کا ساتھ بھٹو صاحب نے بھی دیا۔ یہ ریکارڈ ہے کہ یحییٰ خان بھٹو میدان کی شکار گاہ پر ملے، پھر بھٹو نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا، جو بھی وہاں جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ واضح طور پر یہ اعلان یحییٰ خان اور اس کے رفقائے کار کی "فرمائش" پر کیا گیا۔ اس اعلان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سہولت کاری کا کام کیا۔ بھٹو یہ اعلان نہ کرتے تو بھی یحییٰ خان نے پاکستان توڑ کر ہی دم لینا تھا لیکن شاید وہ یہ کام اتنی آسانی سے نہ کر سکتا اور کیا پتہ اس دوران مہلت مل جانے سے کوئی معجزہ بھی ہو جاتا۔
حمید الحق چودھری مرحوم متحدہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ بنگالی تھے اور پاکستان کے آخر دم تک حامی رہے۔ بنگلہ دیش بننے کا انہیں کسی بھی پنجابی سے زیادہ دکھ تھا۔ انہوں نے جو کتاب لکھی ہے، اس میں اپنے درد و کرب کا اظہار کرنے کے علاوہ وہ ساری تفصیل بتائی ہے جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس کا "سکرپٹ" پہلے سے تیار تھا۔ حمید الحق چودھری نے اپنی کتاب میں بڑی حیرت اور اتنے ہی دکھ سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ بھارتی فوج مشرقی پاکستان کے مغرب کی طرف سے بلا روک ٹوک مشرقی پاکستان داخل ہوئی اور اس نے پیش قدمی بھی کی بلکہ "کوئیک مارچ" کیا اور ڈھاکہ پہنچ گئی۔ دراصل یہ سب کچھ طے تھا۔ (بحوالہ ہفت روزہ زندگی 27دسمبر 1997ئ)
خیر، بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی، اس لیے نہیں کہ انہوں نے یحییٰ خان کی مدد کی تھی، اس لیے بھی نہیں کہ وہ سخت گیر آمر تھے، ہزاروں مخالفین کو جیلوں میں رکھا، بہت سوں کو مروایا وغیرہ۔ بلکہ اس لیے کہ انہوں نے کچھ "جرائم" ایسے کیے تھے جو سرخ لکیر کو پار کرنے کے مترادف تھے۔ مثلاً یہ کہ آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی، یہ کہ عالم اسلام کے بلاک بنانے کی کوشش کی اور مثلاً یہ کہ آئین میں مذہی نوعیت کی ترمیم کی جس پر آغا شورش کاشمیری علیہ الرحمۃ نے لکھا تھا کہ امید ہے، بھٹو کی بخشش کے لیے یہی کافی ہوگا، ختم نبوت کی تحریک میں حصہ لینے والے ایک عمر رسیدہ سیانے مولانا نے ایک محفل میں جس کا ایک سامع میں بھی تھا، اس ترمیم پر فرمایا تھا کہ لکھ لو، اب بھٹو صاحب کو پھانسی ہو کر رہے گی۔ یہ پیش گوئی 1975ء میں کی گئی اور صرف چار برس بعد پوری ہو گئی۔
شیخ جی نے دو ہفتے پہلے فرمایا تھا، آٹے چینی کی تحقیقاتی رپورٹ 25اپریل کو نہیں آئے گی۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد تجزیہ نگار فرما رہے تھے کہ 25 کو "ان کرپٹ عناصر" کو لٹکا دیا جائے گا۔ شیخ جی کی بات درست نکلی۔ یہ رپورٹ آنا ہی نہیں تھی۔ شیخ جی کی اطلاع کسی کشف کا نتیجہ نہیں تھی، جو "فیصلہ" ہو چکا تھا، اس کی خبر تھی۔ اب سنا ہے کہ بجلی کے منصوبوں میں اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے مرتکب "عناصر ثلاثہ" کو بچانے کا بھی فول پروف بندوبست کر لیا گیا ہے۔ رہے نام "ایمانداری" کا۔