ڈالر تین سو سے اوپر جا چکا، چشم بد دور۔ پیٹرول بھی 300 سے اوپر جا پہنچا۔ اس کی اڑان بھی اور اونچی ہونی ہے۔ چینی ذرا پیچھے رہ گئی، تادم تحریر 180 کا ہندسہ عبور کیا ہے اور ابھی باہر سے منگوائی جانی ہے۔ اطلاع ہے کہ تین چار روز تک سوا دو سو کی ہو جائے گی۔ بعض ناانصاف لوگ ان تمام اونچی اڑانوں کا سہرا وزیر اعظم کاکڑ کے سر پر سجاتے ہیں جو کہ انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ وہ جان بوجھ کر دو برگزیدہ بزرگوں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو بھول جاتے ہیں حالانکہ جو پھل باغ میں ہیں، ان کے پیچھے ان دو بزرگوں کی محنت اور خون پسینہ بھی شامل ہے۔ بالخصوص شہباز شریف کی دانشمندی کو داد دینا سخت ضروری ہے جنہوں نے فالتو چینی کے ساتھ غیر فالتو چینی بھی برآمد کر دی۔ اب یہ غیر فالتو چینی اضافی داموں پر واپس منگوائی جا رہی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی یہ بھی ڈالر اور پٹرول کے ہم پلّہ ہو جائے گی۔
***
دو سال قبل تک پی ٹی آئی والے اپنے خان صاحب کو پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر مانتے تھے بلکہ ان کے ایک قصیدہ گو نے تو انہیں قائد اعظم سے بھی بڑا لیڈر کہہ دیا تھا۔ پھر بلندمقامی اور بڑھی اور ڈیڑھ سال پہلے پارٹی نے بتایا کہ خان صاحب ملک نہیں، پوری امت مسلمہ کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ ماشاء اللہ، البتہ اس بلند مقامی کی اطلاع پر مشتمل کاپی صرف لوگوں نے امت مسلمہ کو نہیں بھیجی جس کی وجہ سے امت بدستور اس بات سے بے خبر ہے کہ اسے جس سب سے بڑے لیڈر کی تلاش تھی، وہ مل گیا ہے۔ بلند مقامی کا سفر یہیں تک نہیں رکا، چھ ماہ قبل پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے یہ انقلاب انگیز خبر سنائی کہ خان صاحب کرہ ارض کے سب سے بڑے لیڈر ہیں جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کیا پیوٹن اور کیا اردگان، سبھی بے تاب رہتے ہیں۔
بلند مقامی کی تازہ چھلانگ تو نقطہ عروج تک پہنچ گئی، کچھ دن سے یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ کرہ ارض بے چارہ کیا بچنا ہے، خان صاحب پورے نظام شمسی کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ یعنی مریخ و عطارد سے لے کر مشتری و زھر تک ان کے پائے کا کوئی اور لیڈر نہیں ہے۔
افسوس، اس کائناتی بطل عظیم کو ظالموں نے اٹک کے بندی خانے کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے، اس کا نوٹس کسی نے تو لینا تھا اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے بتایا ہے کہ نوٹس لے لیا گیا ہے۔
***
جی 20 ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی فرمانروا دہلی جانے والے ہیں اور ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق دہلی جاتے ہوئے وہ چند گھنٹے کے لیے پاکستان بھی رکیں گے۔ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ کانفرنس تو ایک بہانہ ہے، اصل میں سعودی فرمانروا نظام الشمسی کے سب سے بڑے لیڈر کو بندی خانے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے طیارے میں انہیں بٹھا کر دہلی لے جائیں گے اور کانفرنس سے سعودی فرمانروا کے ساتھ ساتھ خان صاحب بھی خطاب کریں گے۔
پی ٹی آئی کے ایک روشن ضمیر سے ملاقات ہوئی۔ ان سے پوچھا سعودی رہنما تو کانفرنس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔ پاکستان تو اس تنظیم کا رکن ہی نہیں ہے، پھر خان صاحب کس حیثیت سے وہاں خطاب کریں گے۔ روشن ضمیر نے بتایا کہ وہ نظام شمسی کی نمائندگی کرتے ہوئے خطاب کریں گے۔
***
ایک اور کھٹک رہ گئی، اگر سعودی فرمانروا خان صاحب کو اڑن کھٹولے میں بٹھا کر لے جانے کے لیے پاکستان آ رہے ہیں تو پھر بشریٰ بی بی نے قطر کے شہزادے سے کیوں ملاقات کی ہے۔ حافظ حمد اللہ کے مطابق اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات کی ریکارڈنگ موجود ہے اور اس میں بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ کسی طرح آپ نظام شمسی کے اس سب سے بڑے لیڈر کو بندی خانے سے نکالو اور قطر لے جائو، میں ضمانت دیتی ہوں کہ وہ قطر میں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کریں گے۔ بس تمام عمر تسبیح تھامے رکھیں گے اور روحونیاتی مراقبوں میں وقت بتائیں گے۔
روشن ضمیر سے یہ کھٹک بیان کی تو فرمایا کہ ہر سفر میں ایک سٹپنی کی ضرورت بھی تو ہوتی ہے۔ انہوں نے تصحیح کی کہ ملاقات بشریٰ بی بی نے قطری شہزادے سے نہیں کی بلکہ قطری شہزادے نے ان سے ملاقات کی ہے اور درخواست کی ہے کہ عظیم لیڈر کو قطر بھجوانے میں ہماری مدد کریں۔
عظیم لیڈر کو کون سا ملک لے جائے گا، روشن ضمیر نے بتایا کہ اس حوالے سے ان دونوں ملکوں میں دوڑ لگی ہے۔ اس سوئمبر کا حتمی فیصلہ خان صاحب ہی کریں گے۔
***
بندی خانے میں پہلے بشریٰ بی بی گئیں اور کہا کہ خان کی صحت بہت زیادہ خراب ہے، اس حد تک کہ ان کی جان خطرے میں ہے، وزن بھی کم ہو رہا ہے۔ دو دن بعد ان کی ہمشیرہ محترمہ بھی گئیں۔ ان کا نام بدقسمتی سے یاد نہیں آ رہا لیکن وہی سلائی مشین چلا کر گزارا کرنے والی محترمہ__ انہوں نے بتایا کہ خان صاحب کی صحت بالکل ٹھیک ہے، خوش باش ہیں، بھرپور طریقے ھٹے کٹے ہیں۔
بظاہر دونوں بیانات متضاد ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ دونوں ہی سچ ہیں۔ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد کے دو دنوں میں چمتکار ہوا اور خان صاحب سخت اور تشویشناک بیماری سے نکل کر اچانک ھٹے کٹے ہو گئے۔
خان صاحب کی زندگی میں یہ کوئی پہلا چمتکار نہیں ہے۔ مئی کی بات ہے، ان کی گولیوں سے چھلنی، پلاسٹر لگی ہوئی ٹانگ پونے سیکنڈ میں بھلی چنگی ہوگئی تھی اور وہ اہلکاروں کی معیت میں دوڑتے ہوئے جا کر پرزنرز وین میں بیٹھے تھے۔
خان صاحب کے بہت سے صفائی ناموں میں سے ایک نام چمتکار خان کا بھی ہے۔
***
ایک سب سے اہم اطلاع یہ ہے کہ خان صاحب نے بندی خانے میں قیام کا دورانیہ مختصر کر دیا ہے، قبل ازیں ان کے وکیل نے بتایا تھا کہ خان صاحب (رضاکارانہ بنیادوں پر) ایک ہزار سال جیل میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اب تازہ اطلاع انہی وکیل صاحب کی یہ ہے کہ نظرثانی شدہ فیصلے کے بعد اب وہ ایک سو سال جیل میں رہیں گے۔
یعنی یکمشت 9 سو سال کی کٹوتی۔ اب براہ کرم یہ مت کہئے کہ 100 سال کا این آر او خود خان صاحب نے خود ہی کو دے دیا ہے۔ خان صاحب ہر طرح کے این آر او کے مخالف ہیں۔ بہرحال، امید کرنی چاہئے کہ سو سال کے بعد جب خان صاحب اپنی رضا کارانہ قید ختم کرکے باہر آئیں گے تو اپریل 2123ء میں نامکمل لانگ مارچ کا وہیں سے آغاز کریں گے جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا یعنی وزیر آباد سے۔ اس وقت خان صاحب کی عمر پونے دو سو سال ہوگی لیکن وہ بدستور "ہینڈسم"ہوں گے اور وہ پھر شفاف الیکشن، لیکچروں کے بغیر، کرانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ اس لانگ مارچ میں ان کے ہمراہ چودھری اعتزاز احسن بھی ہوں گے جن کی عمر تب، غالباً سوا تین سو سال ہوگی اور امید ہے ساڑھے چار سو سال کی عمر والے پرویز الٰہی بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔
ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں یعنی حافظ صاحب، ڈرٹی ہیری، نواز شریف، فضل الرحمن اس وقت تک اس دنیا میں نہیں ہوں گے۔ پھر دیکھتے ہیں، کون انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے روکتا ہے۔