Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sulemani Topi Ka Mazeed Safar

Sulemani Topi Ka Mazeed Safar

سلیمانی ٹوپی کا سفر ابھی جاری ہے۔ نواز دور میں 5سال کے دوران 10ہزار، اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں 8ہزار، کل 18ہزار ارب روپے قرضے لئے گئے۔ عمران خاں نے اپنی سینکڑوں تقریروں میں ان قرضوں کی مذمت کی، انہیں لوٹ مار قرار دیا اور ایک قسم کا حلف اٹھایا کہ میں حکومت میں آ کر بھیک نہیں مانگوں گا، مر جائوں گا لیکن غیر ملکی قرضے نہیں لوں گا۔ انہوں نے بے شمار بار کہا کہ یہ قرضے خوردبرد ہوئے ہیں۔ برسر اقتدار آ کر انہوں نے کمشن بنایا اور کہا کہ یہ کمشن پتہ چلائے کہ کہاں کہاں خورد برد ہوئی، پھر لوٹ مار کا حساب ہو گا۔ کمیشن نے رپورٹ دی کہ کوئی خورد برد نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اس حوالہ سے خاموشی چھا گئی، خیر، یہ الگ قصہ ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد عمران خاں نے قرضے لینے کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ دہائی مچ گئی۔ اب خیر سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 38ہزار ارب سے زیادہ کا ہے۔ لیکن اصل بات کہنے کی یہ نہیں تھی، یہ تو "بیک گرائونڈ سیناریو" کے طور پر آ گئی۔ اصل بات یہ تھی کہ ماضی کی حکومتوں نے ان قرضوں سے پراجیکٹ لگائے۔ مثال کے طور پر 11ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹ لگے جس سے لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی۔ ہزاروں میل لمبی موٹر ویز بچھائی گئیں۔ ان کے علاوہ، ہزاروں میل لمبی دوسری شاہراہیں بچھائی گئیں۔ 80ہسپتال بنے، تعلیمی ادارے اور دوسرے پراجیکٹ جن کی ساری تفصیل سرکار کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ موجودہ حکومت نے ان سے زیادہ قرضے لئے اور اگر قرضے لئے تو بالیقین کچھ نہ کچھ پراجیکٹ بھی لگے ہوں گے۔ لیکن ان میں سے نظر تو کوئی بھی نہیں آ رہا۔ وجہ وہی سلیمانی ٹوپی?

٭کچھ لنگر خانے کھلے پھر بند ہو گئے، کچھ شیلٹر ہوم بھی بنے جن میں کچھ دوسرے جانداروں کا بسیرا ہو گیا اور ان پر قرضوں سے کچھ خرچ نہیں ہوا، یہ تو مخیر حضرات کے تعاون سے لگے تھے۔ تعاون جب ختم ہوگیا تو یہ منصوبے بھی ڈھیر ہو گئے۔ جو شاخ نازک پہ "شامیانہ" لگے گا، ناپائیدار ہو گا۔ لنگر خانوں میں دال مل جاتی تھی، گھروں میں اب نہیں ملتی۔ ساڑھے تین سو روپے والی دال خریدنا بس سے باہر نہیں؟ دال کو چھوڑیے، اس ہفتے دوائوں کی قیمتوں میں تیرہویں بار اضافہ ہوا ہے۔ خود عزت مآب وزیر اعظم نے اس ہفتے 37دوائوں کی قیمتیں بڑھانے کی منظوری صادر فرمائی اور اگلے ہی روز ڈریپ نے بجائے 37کے 50ادویات کی قیمت بڑھا دی۔ اس بار اضافہ 15سے 150فیصد ہوا اور یوں مجموعی طور پر، ان تین برسوں میں دوائیں چھ سو فیصد یعنی 6گنا مہنگی ہو گئیں۔ بیمار حضرات اس پر وزیر اعظم کا شکریہ کن الفاظ میں ادا کرتے ہیں، بتانے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔

٭تمام مہنگائیوں کی ماں بجلی کے نرخ ہیں۔ اس خاکسار کا بل ماضی کی کرپٹ حکومت میں جون جولائی کے مہینوں میں 11سے 12ہزار آتا تھا، اس جولائی کا بل 30ہزار روپے آیا ہے۔ سچ بتائوں، میں نے وزیر اعظم کا شکریہ جن الفاظ میں ادا کیا ہے، وہ بتانے کے لئے بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ بس ایک قول زریں یاد آ رہا ہے کہ جب بجلی مہنگی ہو تو سمجھ جائو کہ وزیر اعظم بہت نیک ہے۔ خطے میں مہنگائی سب سے زیادہ ہمارے ہاں ہو گئی۔ بنگلہ دیش میں مہنگائی کی شرح 5بھارت میں 4فیصد ہمارے 18فیصد سے بھی اوپر ہے۔ مہنگائی کو پر نہیں لگے، شاہ پر(شہپر پڑھ لیجیے) لگ گئے ہیں۔ ہاں یاد آیا، ایک قول زریں میں "سپیڈ کی بجلی" کا ذکر تھا، وہی سمجھ لیجیے۔ کچن کا گراسری بل کرپٹ دور میں 5ہزار جس گھرانے کا تھا، وہی گھرانہ اب بارہ ہزار میں بھی اتنا سامان نہیں خرید پاتا۔ بسکٹ کا ڈبہ 9بسکٹوں پر، دس روپے کا تھا، اب اس میں بسکٹ 7اور قیمت 20روپے ہے۔ یعنی خوشحالی کی موم بتی کو دونوں سروں سے آگ دکھا دی گئی ہے۔ پھر وہی قول زریں کہ جب مہنگائی بڑھے تو سمجھ لو، وزیر اعظم نہایت نیک ہے۔

٭اوپر کرپشن ہو تو کرپشن انڈیکس میں کمی آتی ہے۔ واقعی؟ نواز شریف کا دور کرپٹ تھا۔ عالمی انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 117تھا۔ اب ایمانداروں کی حکومت ہے(آٹے، چینی، دوائوں، گیس، بجلی، ایل این جی، رنگ روڈ سمیت درجنوں مقامات پر ایمانداری کے جھنڈے لہرا رہے ہیں، تو کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر مزید نیچے آ کر 127ہو گیا ہے۔ چلیے، یہ بھی ترقی ہے اور ترقی کا رخ اوپر ہو یا نیچے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو کہ جعلی۔

٭بجا ارشاد ہوا کہ کسان خوشحال ہو گئے۔ دو ہزار کی بوری (کھاد) خریدنے والے کاشتکار اب وہی بوری 7ہزار کی خرید رہے ہیں۔ گویا خوشحالی سر چند سے کچھ زیادہ، چار چند سے کچھ کم ہے۔ دسیوں لاکھ مکان بن گئے، دسیوں لاکھ نوکریاں مل گئیں، وزیر اعظم اور گورنر ہائوس یونیورسٹیوں میں بدل گئے۔ سبز پاسپورٹ کی عزت"ٹاپ ٹین" میں آ گئی، درجنوں مثالیں خوشحالی اور ترقی اور ملک کے اوپر اٹھنے کی ہیں اور سلیمانی ٹوپی کا سفر اب جار ی ہے، کوہ سلمان کی چوٹی پر پہنچی گرمی دم لے گا۔ خوشحالی نے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے، اب روک سکو تو روک لو۔