متحدہ کے سر پر غیر جانبدار ڈنڈا تنا رہتا ہے‘ چنانچہ چیں تو کبھی نہیں کرتے البتہ موقع مل جائے تو چراں کرنے کی جرأت کر ہی گزرتے ہیں۔ اعتماد کے ووٹ کا موقع آیا تو ووٹ دیتے ہی بنی۔ ورنہ جانتے ہیں کہ ڈنڈا سر پر ہے۔ بگڑے تگڑوں کا اور متحدہ سے زیادہ ڈنڈا شناس کون ہو سکتا ہے۔ آمدم برسر مطلب‘ متحدہ نے ووٹ تو دے دیا یعنی چیں تک نہیں کی البتہ ووٹ دینے کے بعد ذرا سی چراں کر ڈالی اور اپنے سو سے زیادہ لاپتہ شدگان کی بازیابی کے لیے ایک بے ضرر اور محتاط سا مرثیہ ضرور پڑھ ڈالا۔ وزیراعظم نے بات سنی اور خاموش رہے۔ حالات کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہیں اور مزید گھمبیر بلکہ گھور گھمبیر ہونے کی خبریں بخوبی دے رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم مرثیہ سن کر مسکراتے اور داد سخن دیتے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کہ وزیراعظم مسکرانے کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے بھی لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدہ کردگان کے خلاف کارروائی کے وعدے انہوں نے پرانے پاکستان میں کئے تھے اور اب تو خیر سے نیا پاکستان چل رہا ہے۔
٭ خالد مقبول صدیقی نے اپنے لاپتہ شدگان کا نوحہ ایوان میں پڑھ دیا۔ بہت سے اور بہت ہی زیادہ بہت سے ایسے ہیں جن کا نوحہ پڑھنے والا کوئی نہیں۔ کوئی ان کے لیے ایوان میں بولتا ہے نہ پریس کانفرنس کرتا ہے۔ ان کے لیے کوئی اخبار ادارتی نوٹ لکھتا ہے نہ کوئی ٹی وی چینل ٹکر چلاتا ہے۔ بے شمار تو ایسے ہیں جن کی دو سطری خبر بھی نہیں چھپتی۔ باہر کے صفحات تو دور کی بات اندرونی صفحات میں‘ کسی کونے کھدرے میں‘ ٹینڈر نوٹسوں کے ہجوم میں بھی ہوئی کسی جگہ پر نہیں۔ ہاں‘ ایک آدھ ایسا نکل ہی آتا ہے، جس کی خبر‘ دو تین سطر کی چھپ جاتی ہے‘ بھلے سے اس کے مرنے کے بعد‘ بھلے سے مرنے کے دس سال بعد اور بھلے اس کی نہیں‘ اس کی حادثاتی طور پر برآمد ہونے والی ہڈیوں کی۔ ہڈیوں اور ڈھانچوں کی خبر میں آثار قدیمہ سے متعلق علوم کا حصہ ہیں‘ اس لیے انہیں چھاپنا ایسا زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایک دو اخباروں میں جی ہاں‘ کبھی نہیں‘ زیادہ تر بھی نہیں۔ بس ایک دو اخباروں میں یہ چند سطر کی خبر چھپی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈرسالی گیرم (شمالی وزیرستان) روڈ کی تعمیر کے دوران مزدوروں کو ایک انسان کی ہڈیاں ملیں اور ساتھ ہی شناختی کارڈ بھی۔ پتہ چلا کہ یہ ہڈیاں کسی محمد سلام نامی بدنصیب استاد کی ہیں، جو 2008ء میں لاپتہ کردیا گیا تھا۔ گھر والوں نے بتایا کہ نامعلوم افراد آئے اور انہیں لے گئے ‘پھر وہ لاپتہ رہے اور بارہ سال تک لاپتہ رہے۔ اب ان کا سراغ مل گیا۔ کم از کم شناختی کارڈ بدستور سلامت ہے۔ محمد سلام ایک استاد تھے۔ 2008ء میں ایک صحافی کو لاپتہ کیا گیا تھا۔ حیات الدین نامی یہ صحافی لاپتہ سنٹر سے فرار ہو گیا اور محمد سلام کے گھر پناہ لی۔ بعدازاں حیات اللہ خان کو بھی قتل کر دیا گیا۔ صحافی کا جرم سنگین تھا۔ اس نے امریکی بمباری کے حوالے سے کوئی خبر چھاپی تھی۔ محمد سلام محض استاد تھے‘ اس نے کوئی خبر نہیں چھاپی تھی‘ بس انجانے میں حیات اللہ کو چند گھنٹوں کے لیے گھر میں ٹھہرا لیا تھا۔ ظاہر ہے قانون سے انجانا ہونا بے گناہ ہونے کے مترادف نہیں ہے۔ آپ اشارہ توڑیں اور پھر کہیں کہ نیا ہوں‘ قانون نہیں جانتا تو سارجنٹ آپ کی بات نہیں سنے گا‘ چالان کردے گا۔ استاد محمد سلام کابھی چالان کردیا گیا۔ صحافی کے قتل پر پشاور ہائیکورٹ نے تحقیقات کی تھیں ۔بس۔
٭ پنجاب کی 30 کسان تنظیموں نے لاہور میں مشاورتی کانفرنس کی اور مطالبہ کیا کہ لاہور راوی فرنٹ منصوبہ ختم کیا جائے۔ افسوس‘ دوسرے گمراہوں نے کسانوں کو بھی گمراہ کردیا اور وہ بھی اس قیمتی منصوبے کے خلاف ہو گئے۔ یہ گمراہ عناصر منصوبے کے خلاف طرح طرح کی ہرزہ سرائی کرتے آ رہے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ کسی ادارے کے کان میں جوں نہیں رینگی‘ رینگ جاتی تو اس قیمتی منصوبہ کا کیا ہوتا۔ ہرزہ سرائی نمبر ایک یہ ہے کہ اس سے لاہور کی ماحولیات تباہ ہوگی۔ بے خبر گمراہوں کو پتہ نہیں کہ لاہور اب لاہور رہا ہی کہاں‘ کوڑے‘ کا پہاڑستان بن گیا ہے۔ پنجاب حکمومت کی محنت غیر شاقہ کا تقاضا ہے کہ اس پہاڑ کو خوبصورت ‘‘ نام دیا جائے۔ خوشبوئوں کے شہر میں اب بدبو کے ڈیرے ہیں۔ ایسے کوڑے کرکٹ کے بدبوئیں چھوڑتے ڈھیر کو کس ماحولیاتی خطرے سے خطرہ ہو گا بھائی۔ ذرا سوچو تو سہی۔ ہرزہ سرائی نمبر دو ہے کہ صدیوں سے آباد لوگوں سے ان کی قیمتی زمین گن پوائنٹ پر چھینی جا رہی ہے اور کوڑیوں سے بھی کم دام دیئے جا رہے ہیں۔ جواب اس دو نمبر ہرزہ سرائی کا یہ ہے کہ دو کوڑی کے لوگوں کو کوڑی مل رہی ہے، تو غنیمت سمجھیں‘ یہ بھی نہ ملتی تو کیا بگاڑ لیتے۔ اس زمین کے شاندار لگژری عمارتیں بنیں گی۔ خوبصورت لوگ حسین و جمیل عمارتیں شہزادیوں جیسی بیگمات‘ پری زادوں جیسے بچے‘ نادیدہ زیب چم چم چم کرتی لمبی گاڑیاں‘ لش پش کرتی آٹھ رویہ سڑکیں‘ باغوں‘ پارکوں‘ جھولوں اور جھیلوں کی بہار۔ پھر اسی جگہ بنے گا نیا پاکستان۔ ہرزہ سرائی کرنے والوں کو تو نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔
٭ رحیم یار خان میں غربت اور فاقوں کی وجہ سے ایک شہری نے تین کمسن بچے اور بیوی قتل کر کے اپنی جان بھی لے لی۔ انا للہ۔ وزیراعلیٰ بزدار نے اس خبر کا نوٹس لے لیا ہے۔ سبحان اللہ۔وزیراعلیٰ ہر خبر کا نوٹس لیتے ہیں۔ اب تک کئی ہزار نوٹس لے چکے ہیں۔ پتہ نہیں انہیں اس بات کا پتہ ہے کہ نہیں۔ خودکشیاں پہلے کبھی ہوتی رہی ہیں‘ اب کئی گنا زیادہ کیوں ہو گئیں۔ تازہ رپورٹ ہے کہ مہنگائی کی شرح 14.95 یعنی 15 فیصد ہو گئی‘ مزید ترقی کا امکان ہے۔ وزیراعظم کے ٹویٹس البتہ بتاتے ہیں کہ ماشاء اللہ مہنگائی مسلسل کم ہورہی ہے۔ حیرت ہے‘ انہوں نے ابھی تک ایسے ٹویٹس نہیں کئے کہ خوشحالی کی وجہ سے خودکشیوں کی شرح بھی کم ہو گئی ہے۔ (نوٹ: یاد رہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار سابق حکومت ہے)۔