قدیم ہندوستان میں اشوک اعظم کی طرف سے متعدد شاہی فرمان جاری ہوئے جنہیں حقوق انسانی کے ابتدائی تصورات کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اشوک اعظم نے 238 سے 265 ق۔ م تک ہندوستان اور افغانستان پر حکومت کی اشوک اعظم کو اس ناتے سے ایشیاء میں "بابائے انسانی حقوق" کہا جا سکتا ہے کئی دانشور اشوک بادشاہ کے شاہی فرامین کو دنیا میں انسانی حقوق کا پہلا عالمگیر اعلامیہ قرار دیتے ہیں۔
اشوک بادشاہ نے جانوروں کے حقوق کے متعلق بھی فرمان جا ری کیے۔ ہندوستان کی موجودہ ریاست اڑیسہ میں برپا ہونے والی خونی جنگ کے بعد اشوک بادشاہ نے تشدد کو ترک کر کے بدھ مت اختیار کر کے دھرم کی تبلیغ کا راستہ چن لیا اور تمام مذاہب اور عقیدوں کے احترام اور آزادی کی پالیسی اختیار کی۔ اشوک بادشاہ نے بہت سارے فرمان چٹانوں اور ستونوں پرکندہ کروائے بشمول شیر کی شبیہ والے سارناتھ کے ستون کے جو کہ آج کل ہندوستا ن کا قومی نشان ہے، چٹانوں پر کندہ 14 فرمانوں میں سے مندرجہ ذیل بنیادی حقوق سے مناسبت رکھتے ہیں۔ (1) ہر مذہب کے لوگ اپنے علاقے میں آرام و سکون سے رہیں، اس حق میں مداخلت نہ ہوگی۔ (2)جانوروں کے لیے شفا خانے بنائے جائیں۔
(3) وزراء کا فرض ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے دھرم کو فروغ دیں۔ (4)جانوروں کا سر عام ذبح کرنا ممنوع ہو گا۔ (5) دھرم کا مطلب یہ ہے کہ نوکروں، ملازموں کے ساتھ حسن سلو ک اور اسا تذہ کا احترام (6) تمام جانوروں، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تحمل اور فراخ دلی کا برتاؤ کیا جائے اور کسی بھی جاندار کو قتل نہ کیا جائے۔ (7) تمام مذاہب کے بنیادی عقائد کو فروغ دیا جائے۔
رواداری اور برداشت کے لحاظ سے دوسرا معتبر اور قابل ذکر نام ہندوستان کے شنہشاہ اکبر اعظم کاہے۔ شنہشاہ اکبر نے کئی انسانی حقوق کو مروج اور مختلف سماجی اور مذہبی روایات کی برداشت کو فروغ دیا، جس میں اپنے عقائد کے مطابق پرستش کا حق بھی شامل تھا۔ اکبر شہنشاہ نے تعصب اور عدم رواداری کی ممانعت اور اپنی بادشاہت میں غیر مسلموں پر اضافی ٹیکس کا خاتمہ کردیا۔ شہنشاہ اکبر اس بات کی وکالت کرتا تھا کہ کسی بھی فردکے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور ہرفردکو کوئی بھی عقیدہ اختیارکرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
جب یورپ احیائے علوم سے برسوں پیچھے تھا تو شہنشاہ اکبر اس قسم کی اعلیٰ ظرفی کا مظاہر ہ کر رہاتھا۔ شہنشاہ اکبر نے غلامی اور ستی جیسے غیر اخلاقی رواجوں کی حوصلہ شکنی کی، اس طرح شہنشاہ اکبر نے حقوق انسانی کے احترام کو عملی طورپر لاگوکیا۔ پوری دنیا میں سترہویں صدی میں یہ خیال ابھرا کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن اسے ہرجگہ پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔ پابندیوں کے ساتھ آزادی کا تصور بے معنی ہے قانونی اعتبار سے بنیادی حقوق جدید دورکی جمہوری ریاست کے شہریوں کی وہ مراعات ہیں جنہیں ریاست تسلیم کرکے نافذ کرتی ہے۔ جب حقوق کو آئینی تحفظ دے دیا جائے تو انہیں بنیادی حقوق کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں حکومت کی مداخلت بے جا سے بھی تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ بنیادی حقوق کو آئینی دستاویز میں شامل کرنے کاآغاز دورجدید میں امریکن نظام میں ملتا ہے۔
بنیادی حقوق کا تعلق انسانی معاشرے سے اس قدرگہرا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر ایک اچھے معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی حقوق کی تاریخ انقلاب فرانس 1789 کے بعد شروع ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد انسانی حقوق کی بنیاد رکھی گئی اور باقاعدہ انسانی حقوق کا اعلان نامہ شائع ہوا۔ زمانہ جدید میں جب آئین سازی کا رواج شروع ہواتو فرانس کی تقلید کرتے ہوئے آئین میں ایک باب بنیادی انسانی حقوق کا بھی رکھا جاتا ہے۔ 1973 کا آئین پاکستان کا تیسرا قومی آئین ہے، یہ آئین 10 اپریل 1973 کو منظور ہوا۔ 13 اپریل 1973 کو اس پر صدر مملکت نے دستخط کیے اور 14 اگست 1973کو مکمل نافذ ہوا۔ آئین پاکستان میں بنیادی حقوق کاذکر حصہ دوم کے شروع میں ہے۔
آئین پاکستان میں کل دفعات 280 ہیں بنیادی حقوق کا ذکر دفعات 8 سے 28 تک ہے۔ بنیادی حقوق ہر شہر ی کو بلا امتیاز رنگ و نسل، عقیدے، ذات اور مذہب کے حاصل ہوتے ہیں۔ ملک میں ان بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کا اولین فرض ہے کہ ان بنیادی حقوق کا تحفظ کریں اور یہ اختیار اعلیٰ عدالتوں کو آئین کی دفعہ 184 کی ذیلی دفعہ3 کے تحت حاصل ہے۔ آرٹیکل نمبر9 کے تحت کسی بھی شخص کو زندہ رہنے کے حق جو کہ اسے قانون کے مطا بق حاصل ہے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس آرٹیکل کی وضاحت اس طرح ہے کہ زندہ رہنے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے اس بات کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی دوسرے پر ہاتھ اٹھائے اور اس کی زندگی کو ختم کر دے۔
ملٹن کا قول ہے جو آزادی کا دلدادہ ہو اس کو اس سے پہلے دانا اور دیانتدار ہونا ضروری ہے وجہ یہ ہے کہ آزادی نہ فروخت ہوتی ہے اور نہ ہی بخشی جاتی ہے بلکہ اس کو حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد، ایثار، قربانی اور استعداد کی ضرورت ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ امن باہرکی دنیا میں نہیں بلکہ خود انسان کی ذات کے اندر ہی موجود ہے۔ اسلام یہ بھی سکھلاتا ہے کہ آدمی کو اپنی فکر میں آزادی اور تنقیدکے رویے کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم کامیاب ہوسکتے ہیں ہمیں صرف اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا منفی سوچ کے بجائے مثبت سو چ پیدا کرنی ہو گی۔
ایک دوسرے کو تسلیم اور برداشت کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے سے محبت کرنا ہو گی اور یہی سو چ ہماری تخلیقی سو چ کو آزاد کر دے گی۔ ہم زندگی کی جنگ میں ہار ے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے ہیں۔ آپ کوئی ایک ملک بتا دیجیے جہاں سو فیصد ایک مذہب، فرقے، زبان، مسلک، رنگ ونسل کے لوگ رہتے ہوں جہاں تک آپ کی نظریں یا سوچ جاسکتی ہے دیکھ لیں اور سو چ لیں ایک بار پھر دیکھ لیں اور سوچ لیں ہر بار آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا بھرکے لوگوں نے اختلاف، مختلف نقطہ نظر، مختلف عقیدوں، مختلف مذاہب کے باوجو د امن و محبت و اتحاد کے ساتھ اور ایک ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احترام بھی سیکھ چکے ہیں پوری دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا یہ ہی راز ہے کہ انھوں نے اختلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔
یاد رہے بڑے سے بڑا جہاز اس وقت تک نہیں ڈوب سکتا جب تک اس کے اندر سوراخ نہ ہو جائے۔ اختلاف پر اختلاف بڑی جہالت ہے، مذہب انسانوں کے ہوتے ہیں ریاست کے نہیں۔ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہوتا ہے عقیدہ انسان کو خدا سے جوڑتا ہے جب کہ ریاست کا تعلق شہریوں سے ہوتا ہے نہ ہر شہری کا مذہب ایک ہوتا ہے نہ عقیدہ نہ ایک زبان۔ ایک ریاست کو چلانے کے لیے ایک غیر جانب دار، غیر مذہبی قانون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہر شہری اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکے۔ ہمیں 72 سال گزر چکے ہیں مذہبی نفر توں میں جلتے ہوئے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کافرکہتے ہوئے۔ جون ایلیا کہتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کر نیوالے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔
آئیں! ہم بھی پوری دنیا کی طرف اختلاف پر اتفاق کر لیں، تاکہ ہمیں بھی ایک دوسرے کی محبت، اخوت، پیارنصیب ہو سکے اورہم بھی دنیا بھرکے ہمسفر بن سکیں۔