چارلس ڈکنز نے ایک قیدی کے بارے میں لکھا ہے جو کہ کئی سال سے زندان میں قید تھا جب اس کی سزا کی مدت پوری ہوجاتی ہے تو اسے آزادی دے دی جاتی ہے اور اسے اس کی تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکال کر کھلی اور روشن فضا میں لایا جاتا ہے وہ شخص چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر تازہ تازہ حاصل ہونے والی آزادی اسے اتنی غیر آرام دہ محسوس ہونے لگتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسے اس کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا جائے۔
اس قیدی کے لیے آزادی اور کھلی دنیا کا تحفظ اور آرام و سکون عطا کرنے والی تبدیلی کو قبول کرنے سے زندان، زنجیریں اور تاریکی زیادہ مانوس تھیں۔ ہمارا بھی آج حال ان قیدیوں جیسا ہی ہے جنھیں اپنی وحشت میں ہی تسکین ملتی ہے۔ جنھیں اپنی بدحالی، بربادی غربت سے اس قدر لگاؤ ہوگیا ہے کہ وہ انھیں اپنے سے الگ کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ جنھیں عقل و شعور سے نفرت ہے سوچنے سے جنھیں چڑ ہے۔ انسانی فطرت ہمیشہ تبدیلی کی مزاحمت کرتی ہے کیونکہ تبدیلی ہمیشہ تناؤ کو جنم دیتی ہے۔
انسان تبدیلی سے اس لیے بھی دور بھاگتا ہے کہ اسے اس میں نئے فیصلے کرنا پڑتے ہیں ان نئے فیصلوں میں اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ و ہ ماضی میں غلطی پر تھا وہ اندھیروں میں بھٹکتا پھر رہا تھا۔ اس کے کیے گئے تمام سابقہ فیصلے غلط تھے۔ وہ اس ندامت سے بچنے کے لیے اپنے آپ سے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے تبدیلی کے سامنے خود رکاوٹ بن جاتا ہے و ہ تبدیلی کی ہر ممکن مزاحمت کرتا ہے ایسے تمام لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جسے "تجزیے کا فالج " کہا جاتا ہے۔
ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ جب میں بڑا ہوں گا تو یہ کروں گا وہ کروں گا اور خوشی حاصل کروں گا جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے جب میں کالج کی تعلیم مکمل کرلوں گا تب خوشی حاصل کروں گا جب وہ کالج کی تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ جب میں ملازمت پا لوں گا تب خوشی حاصل کروں گا جب وہ ملازمت پا لیتا ہے تو کہتا ہے جب میں شادی کروں گا تو خوشی حاصل کروں گا جب وہ شادی کرلیتا ہے تو کہتا ہے جب میرے بچے ہوں گے اور وہ اسکول کی تعلیم مکمل کریں گے تب میں خوشی حاصل کروں گا جب بچے اسکول کی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں ریٹائر ہوں گا تو خوشی حاصل کروں گا جب وہ ریٹائر ہو جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ زندگی تو یوں ہی گذر گئی ہے۔
دنیا کا سب سے افسوس ناک لفظ " کاش " ہے ہمیں جتنی محبت اپنے آپ سے ہے اتنی ہی محبت لفظ کاش سے بھی ہے اس سے واپس لپٹ جاتے ہیں ایک سوئے شخص کو جگانا بہت آسان ہے لیکن جاگتے ہوئے کو جگانا بہت مشکل ہے ہم سب جاگ تو رہے ہیں لیکن جاگنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم اپنی موجودہ حالت کو بدلنا ہی نہیں چاہتے ہیں ہم سب ماضی کے مزاروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور مزار بھی ایسے جن میں نہ تو ہوا آنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی روشنی آنے کا کوئی ذریعہ ہے ان مزاروں میں اتنے جالے نہیں ہیں جتنے کہ ہمارے ذہنوں میں ہیں۔ سقراط بار بار اس بات پر زور دیتا تھا کہ " خود کو پہچانو"۔
خود شناسی کا مطلب یہ ہے کہ آپ سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کے اقدار اور معیار کیا ہیں آپ کے اندرونی خیالات اور نظریات کیا ہیں کن امور کو آپ ترجیح دیتے ہیں اور کن چیزوں کو آپ کی زندگی میں بہت فوقیت حاصل ہے زندگی میں کیے گئے ہمارے تمام فیصلے اور انتخاب ہماری قدروں پر مبنی ہوتے ہیں اور زندگی کی تمام خوشیوں، دکھوں اور کیفیتوں کا سبب یہ بھی ہے کہ آپ کی اقدار پسند اور چاہت تو کچھ اور ہے لیکن آپ اپناتے کسی دوسری چیز کو ہیں انتخاب اور عمل کے اس تضاد کا یعنی نتیجہ ذہنی خلفشار، انتشار اور پریشانیوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے حقیقی خوشی اور سکون صرف اسی ایک صورت میں ملتا ہے کہ آپ کی قدروں اور اعمال و اطور میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہو۔
قدیم ہندوستانی داناؤں کا کہنا تھا کہ ہم پر پہلی ذمے داری ہمارے سماج کی ہوتی ہے پھر خاندان کی اور آخر میں ہماری اپنی۔ جب یہ تربیت الٹ جاتی ہے تو سماج تباہ ہو جاتا ہے سماجی ذمے داری ہر شہری کا اخلاقی فریضہ ہوتی ہے ذمے داری اور آزادی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اچھے شہری کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا بوجھ خود اٹھانے پر راضی ہوتا ہے۔ چرچل نے کہا تھا " ذمے داری عظمت کی قیمت ہے"۔ سماج بدکاروں کی کارروائیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں۔