ہمارے ملک کے صاحب اقتدار و اختیار اور اشرافیہ کو مبارک ہوکہ وہ اپنے مقصد میں بری طرح سے کامیاب ہوگئے ہیں، ان کی ان تھک کوششوں اور طویل کاوشوں کے نتیجے میں آج پاکستان کے 22 کروڑ عوام کھوکھلے، مردہ، بے بس، بے حس ہوچکے ہیں۔
اب ان کے لیے مزاحمت، جدوجہد نامی باتیں بے مقصد اور بے سود ہوچکی ہیں وہ اپنی بے چارگی، ذلت، جہالت، بیماریوں، گالیوں، غربت وافلاس کو اپنا نصیب اور مقدر تسلیم کرچکے ہیں۔ اب ان کی حکمرانی اور بادشاہت کو کہیں سے اورکسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے اب مزے کرتے جائو اور عیش کرتے جائو۔ جس خوبصورتی، مہارت اور ذہانت سے تم نے کھیل کھیلا ہے اس پر تمہیں ڈبل داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا۔
آئیں ! ان کے کھیلے گئے اس کھیل کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیری ایمر سن فوسڈک نے ایک جنگلی دیو کے متعلق ایک بڑی دلچسپ کہانی لکھی ہے۔ امریکا کی ریاست کو لوراڈو میں کوہ لونگ کی ایک چوٹی کی ڈھلان پر ایک عظیم الجث درخت کے آثار ملتے ہیں۔
ماہرین فطرت کا اندازہ ہے کہ یہ درخت وہاں کوئی چار سو سال سے کھڑا ہے، جب کولمبس امریکا کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تو یہ محض ایک چھوٹا سا نازک پودا تھا اور جب پلائی ماوتھ میں زائرین آباد ہوئے اس وقت یہ نصف تک بڑھ چکا تھا۔ ایک طویل زندگی کے دوران میں اس پر چودہ دفعہ بجلی گری اور زمانے کے بے شمارحوادث اور طوفان گزرگئے لیکن اس کا وجود پھر بھی قائم رہا، آخرکار بھنوروں کے ایک لشکر نے اس پر یلغارکردی اور اسے زمین کے برابر ہموارکر دیا اور ان بھنوروں نے اس کا گودا کھا کھا کر اس کی چھال کے اندر اپنا راستہ بنا لیا اور آہستہ آہستہ اپنی حقیر لیکن مسلسل کوششوں سے اس کی داخلی قوت کو تباہ کر دیا۔
ایک جنگلی دیو جسے آسمانی بجلی نہ جلاسکی حوادث زمانہ اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے اور نہ طوفان اس کا کچھ بگاڑ سکے لیکن بھنوروں کے سامنے وہ بے بس پڑا تھا، ایک بھنورا جسے انسان اپنی دو انگلیوں کے درمیان مسل ڈالے۔ کیا ہم سب پر جنگل کے اس ہیب دیو کی مثال صادق نہیں آتی؟ ہم زندگی کے وقتی طوفانوں اور حوادثات سے تو بچ نکلتے ہیں لیکن ہم پریشانی کے ادنی اور حقیر بھنوروں کو یہ اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے اجسام کوگھن کی طرح چھید ڈالیں۔ وہ وہی ادنی اور حقیر بھنورے جنھیں دو انگلیوں کے درمیان مسلا جاسکتا ہے۔
جب آپ اور میں اپنی پریشانیوں اور الجھنوں کا تانا بانا بنتے رہیں گے تو ہم چارلس ڈارون کے "مہیب اژدہوں " کے ریوڑ پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے اور یہ اژدہے ہمیں کھوکھلا کر دیں گے۔ جب چین کے ظالم جنگی رہنما اپنے قیدیوں کو ستانا اور اذیت دینا چاہتے تھے وہ ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر پانی کے ایک ٹب کے نیچے بٹھا دیتے تھے، جس سے مسلسل قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہتا تھا ٹپکتا تھا " ٹپ ٹپ ٹپ " دن رات ٹپکتا تھا پانی کے یہ قطرے سر پر متواتر ٹپکنے سے ایسا معلوم ہونے لگتا تھا، جیسے ہتھوڑے کی ضربیں پڑ رہی ہوں۔
اس طریقہ کار سے لوگوں کے ہوش وحواس زائل ہوجاتے تھے۔ اذیت کا یہ ہی طریقہ ہسپانوی احتساب اور ہٹلرکے جرمن اجتماعی کیمپوں میں بھی اختیار کیا گیا تھا۔ پریشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے کے مانند ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خود کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ آپ اورکچھ نہ کریں پچھلے 30سالوں کے دوران ملک میں خو دکشیاں کرنے والوں، اذیت ناک بیماریوں میں مبتلا ہونے والوں، ذہنی توازن کھو دینے والوں کی زندگیوں کا تفصیلی معائنہ کر لیں ان کی گذری زندگی کے شب و روزکا مکمل جائزہ لے لیں۔
ان کے متعلق مکمل معلومات کر لیں جب آپ یہ سب کچھ کرچکے ہوں گے تو آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ان سب کی بے وقت موت، ان کی اذیت ناک بیماریوں ان کے پاگل پن کے پیچھے ان کی پر یشانیاں، الجھنیں کھڑی قہقہے لگا رہی ہیں۔ وہ ہی پریشانیاں، الجھنیں پورے ملک میں گھر گھر منڈلا رہی ہیں، آپ کو اور مجھے دبوچنے کے لیے ماری ماری پھر رہی ہیں۔ ذہن میں رہے یہ موت کے فرشتے سے زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ موت سے دوچارکرتی ہیں۔
ملک کا یہ منظر دیکھ کر بے اختیار سو فوکلیزکا صدیوں قبل لکھا المیہ ڈرامہ " شاہ اوئی دی پوس " یاد آجاتا ہے۔"تھیسیز میں لوئی دی پوس کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گذاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے۔ ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتا ہے اورکہتا ہے کیڈس کے قدیم ترین گھرانے کے بیٹو! کیا بات ہے، آج تم عرض گذاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے کیوں آئے ہو؟ شہر میں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے، اذیتوں کو دورکرنے کے لیے دعائیں کیوں مانگی جا رہی ہیں، میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آکر دیکھوں۔
پجاری جواب میں کہتا ہے۔" اے مالک، بادشاہ وقت، دیکھ رہے ہوکہ شہرکس تکلیف میں ہے، موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے چار سو موت پھیلی ہوئی ہے سب موت کی زد میں ہیں، مائوں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے موت کی زد میں ہیں "ہائے افسوس صد افسوس ہم تو کسی کے سامنے فریاد بھی نہیں کرسکتے۔ کسی کے سامنے آہ و بکا بھی نہیں کرسکتے۔ بس چپ چاپ قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کے منتظر ہیں، اس قطار میں جن کی نصیب میں یا تو خود کشی ہے یا اذیت ناک بیماریاں ہیں یا پاگل پن ہے۔