پراگ میں پیتل سے بنے مجسمے ایک ترتیب میں رکھے گئے ہیں۔ نڈھال، سر تسلیم خم، پریشان حال اور شکستہ بدن، پہلا مجسمہ صحیح سالم مگر آگے یہ ہی شخص کٹتے کٹتے معدوم ہو جاتا ہے آخر میں اس شخص کا صرف پائوں رہ جاتاہے ان مجسموں کے خالق اوبرام زوک ہیں، یہ مجسمے ماضی میں چیک ری پبلک میں ہونے والی جبر کی کہانی سنا رہے ہیں۔
دو لاکھ سے زیادہ افراد گرفتار ہوئے اور 4500 جیلوں میں دم توڑ گئے تقریباً ایک لاکھ 70ہزار افراد کو جلا وطن کیا گیا 248 افراد کو پھانسیاں اور 327کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولیاں ماری گئیں۔ جبر کی کہانی نہ گونگی ہوتی ہے اور نہ ہی لنگڑی وہ نہ صرف بولتی رہتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتی بھی رہتی ہے وہ کہانی چاہے قبل از مسیح کی ہو یا ماضی قریب کے یا موجودہ دور کی، وہ اپنا سفر برابر جاری رہتی ہے اور اپنی کہانی سناتی رہتی ہے اس کو روک دینا انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کہانی کے کردار کبھی نہیں مرتے ہیں وہ برابر اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں برابر روتے رہتے ہیں برابر چلاتے اور چیختے رہتے ہیں اس لیے کہ ان کی تکلیف اور اذیت ختم ہی نہیں ہو پاتی ہے۔
یہ سفر اس وقت تک اسی طرح جاری رہے گا جب تک وقت مر نہیں جائے گا اور جب تک وقت مر نہیں جائے گا اور جب وقت کو موت آجائے گی تب وہ کردار خدا کے سامنے اپنی اپنی کہانی سنائیں گے خدا کے سامنے روئیں گے اور پھر خدا جو فیصلہ سنائے گا وہ سب جاننے والے جانتے ہیں۔ جبر کے ہاتھوں مرنے والوں کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی ہیں وہ اس جگہ منڈلاتی رہتی ہیں اسی لیے ان جگہوں پر ایک ایسی وحشت اور دہشت طاری ہوتی ہے کہ انسان کا دل وہاں سے دور بھاگ جانے کو کرتا ہے۔
آیئے! ہم اپنی جبر کی کہانی سنتے ہیں۔ ہمارے سماج میں جبر سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہے وہ سب انسان بے وقت، بے موت مار دیے گئے بغیر کسی جرم اور گناہ کے وہ موت کی سزا کے حق دار قرار دیے گئے۔ موت کی یہ کہانی آج بھی ہمارے سماج کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں باربار دہرائی جارہی ہے ہر محلے، ہر گلی کو چے میں معصوم، بے گنا ہ، بے سبب بغیر کسی جرم کے بغیر کسی بات پر بغیر کسی قصور کے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں کوئی بھوک اور غربت کی وجہ سے کوئی بے روزگاری کی وجہ سے، کوئی بیماری کے سبب، کوئی روٹی کی وجہ سے، کوئی انتہاپسندی، عدم مساوات کے ہاتھوں، کوئی ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں قبر میں سلایا جا رہا ہے اور موت بانٹنے والے یہ سو چے سمجھے اور جانے بغیر کہ انہیں اپنی ایک ایک زیادتی، ناانصافی، ظلم و ستم کا حساب دنیا میں ہی دینا ہوگا، مسلسل موت تقسیم کرنے میں مگن ہیں جب خدا کسی کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتا ہے تو یقین جانو وہ انسان عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہے، ایسے عذاب میں جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ فرعون اور قارون کو مرے صدیاں بیت چکی ہیں، ہلاکو خان، ہٹلر، مسولینی، شاہ فرانس کو مرے سالوں ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی عذاب کی قید میں ہیں۔ یاد رکھیں جب کسی کا نام سن کر کسی انسان کو کراہت آجائے۔ انسان بے اختیار کسی کو بددعا کرنے لگ جائے اس کے دل سے آہ و بکا کی چیخیں نکلنا شروع ہو جائیں تو یقین کرلو اس پر عذاب جاری ہے۔ میرے ملک کے با اختیاروں، طاقتوروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، امرا تمہیں دیکھ کر یا تمہارا ذکر سن کر ملک کے ناداروں، بے کسوں، بے بسوں، غریبوں، بھوکوں، بیماروں کے دل سے تمہارے لیے بد دعائیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں آہ و بکا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ہاتھ خود بخود آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔
مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا " ان بیس برسوں میں لوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنے کے دوران میں اس بات کا زیادہ احساس ہوا ہے کہ کسی انسان کا غیر ضروری ہوجانا ایسی خراب بیماری کے برابر ہے انسان کو جس کا کبھی تجربہ بھی نہیں ہوسکتا۔
انہیں یقین ہے کہ آج کل کی خراب ترین بیماری کوڑھ یا تپ دق نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ اس کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی جس کو ہر شخص بے یارو مددگار چھوڑ دے " 1969کا نوبیل امن حاصل کرنے والے ادارے International Labor Organization کے منشور میں کہا گیا ہے " اگر آپ امن کے خواہش مند ہیں تو انصاف کاشت کیجیے، مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کھیت بھی تیار کیجیے جن میں زیادہ روٹی پیدا کی جاسکے ورنہ امن باقی نہیں رہے گا" یہ اعتراف کہ بھوک اور سماجی بد نظمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں نئی بات نہیں، عہد نامہ عتیق میں اس کا ثبوت موجود ہے " اور یہ سب تو گذر جائے گا مگر جب وہ بھوکے ہوں گے تو وہ خود کو خراب کریں گے اور اپنے بادشاہ اور اپنے خدا کو بدعائیں دیں گے "۔
FAO کے پہلے ڈائریکٹر جنرل اور نوبیل انعام یافتہ لارڈ جان بائیڈآدر کے مشہور الفاظ تھے " امن بھوکے شکم پر تعمیر نہیں کیا جا سکتا " جس ماحول میں مفلسی اور محرومیوں کا راج ہو وہ امن کے لیے کبھی ساز گار نہیں ہوتا جہاں تعلیم کی اور آگاہی کی کمی ہو وہاں امن فروغ نہیں پاتا، جبر و تشدد، ناانصافی اور استحصال امن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں مفلسی کا دکھ امیر کو گھٹاتا ہے اور مفلسی کی نجات امیر کو بڑھاتی ہے، اس لیے آج جو لوگ پاکستان میں طاری موت جیسی خاموشی پر مطمئن ہیں ان سے زیادہ ناسمجھی کی مخلوق دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر جب کروڑوں انسانوں میں یہ احساس اپنی جگہ بنالے کہ وہ سب کے سب غیر ضروری ہیں تو ایسے انسان چلتی پھرتی بارودی سرنگیں بن جاتے ہیں جو کہیں بھی پھٹ سکتی ہیں۔