کورونا کے دکھوں کے مارے پاکستان کو دوست ملک چین نے ویکسین بھیج دی ہے۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ ایسے لوگ کیا کم ہیں جو دودھ میں مینگنیاں اس لئے ڈال دیتے ہیں کہ قوم کو بھکاری، پسماندہ اور بے سہارا ہونے کی گالی دلوا سکیں۔
اس میں کیا شک ہے کہ بھلے وقتوں میں راشن ڈپو بنے تو ہر خاندان کو افراد کی تعداد کے لحاظ سے چینی آٹا دیا جاتا۔ جو صاحب رسوخ تھے وہ راستے نکال لیتے ان کی خوشی غمی پر چینی کوٹے سے کہیں زیادہ خرچ ہوتی کورونا نے قوم کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈالا۔ حکومت نے ٹیسٹنگ کٹ درآمد کیں کئی روز تک کٹ پاس جمع رکھیں۔ اس دوران کورونا کے وار تیز ہوئے اور لوٹ دھڑا دھڑ نجی لیبارٹریوں اور ہسپتالوں کی طرف دوڑ پڑے۔ کسی نے گیارہ ہزار لیا کسی نے 9ہزار اب ان ٹیسٹوں کی اعتباریت کو درجوں میں بانٹ دیا گیا۔ زیادہ پیسے والے ٹیسٹ زیادہ قابل اعتبار قرار دیے جاتے رہے۔
کورونا ویکسین کی جو خوراکیں وطن پہنچیں ہیں وہ 22کروڑ نفوس کے لئے نہیں چند لاکھ کے کام آئیں گی کورونا کا خوف ہے ہر روز پچاس ساٹھ افراد کی ہلاکت کی خبر سے پریشانی بڑھ رہی ہے۔ انسداد کا واحد ذریعہ ویکسین ہے۔
چین کی سرکاری دوا ساز کپمنی کی تیارکردہ ویکسین سائنو فارم کی پانچ لاکھ خوراکیں چین کی جانب سے پاکستان کو عطیہ کی گئی ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملک میں ویکسین کے انتظام اور ترسیل کے لیے جامع حکمت عملی اور اقدامات کو پہلے ہی حتمی شکل دی جا چکی ہے۔
اسلام آباد میں ویکسین محفوظ کرنے کے لیے اورمختلف صوبوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں ویکسین پہنچانے کے تمام ضروری اقدامت بھی مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کورونا ویکسین کی رجسٹریشن اور اس کے انتظام کی نگرانی کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے آن لائن پورٹل نیشنل ایمونائزیشن مینجمنٹ سسٹم (این آئی ایم ایس) بنایا گیا ہے۔ ویکسین لگانے کے لیے ملک میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر متعدد ویکسین مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں جا کر کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی جا سکتی ہے۔ اس اہم بات مدنظر رہے کہ پہلے مرحلے میں صحت کے عملے کو ویکسین لگائی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں ساٹھ سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد کو یہ ویکسین لگائی جائے گی۔ ویکسین کی فراہمی کے قومی ادارے (ای پی آئی) کے حکام کا کہنا ہے کہ 60 سال اور اسے بڑی عمر کے افراد کا ڈیٹا شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے نادرا سے حاصل کر لیا گیا ہے۔
تیسرے مرحلے میں اٹھارہ سال اور اس سے بڑی عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔ یاد رہے کہ حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد کو ویکسین نہیں لگائی جائے گی۔ چین کی سرکاری دوا ساز کمپنی کی جانب سے بنائی گئی کورونا ویکسین سائنو فارم کو محفوظ رکھنے کے لیے دو سے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہے۔ لہٰذا ہر ویکسین سینٹر پر ویکسین کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص 'آئی ایل آر' ریفریجریٹر رکھا گیا ہے، جہاں اس ویکسین کو حفاظت سے رکھا جائے گا۔
عموماً ویکسین چھوٹی بوتلوں 'وائل' میں دستیاب ہوتی ہے لیکن سائنو فارم ویکسین کی ہر خوراک ایک سرنج میں بھری ہوئی آئے گی، جسے لگانے کے بعد توڑ کر پھینک دیا جائے گا تاکہ یہ سرنج دوبارہ استعمال نہ کی جا سکے۔ اس ویکسین کی دو خوراکیں ہیں۔ پہلی خوراک کے 21 دن کے بعد دوسری خوراک دی جائے گی۔
سائنو فارم کورونا سے بچاؤ میں 79.35 فیصد موثر ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہیں کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں لگائیں جائیں۔ وہ تمام افراد جو اپنے آپ کو کورونا ویکسین کے لیے رجسٹر کروانا چاہتے ہیں انھیں یہ طریقہ کار اپنانا ہو گا۔ اپنا شناختی کارڈ نمبر اپنے موبائل فون سے 1166 پر ایس ایم ایس کریں۔ رجسٹریشن کے لیے این آئی ایم ایس کی ویب سائٹ کا استعمال بھی کیا جا سکے گا۔ آپ کے شناختی کارڈ کے موجودہ پتے کے مطابق آپ کو قریبی ویکسین سنٹر کا پتہ ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجا جائے گا۔
جب ویکسین دستیاب ہوجائے تو رجسٹریشن کروانے والے افراد کو ایس ایم ایس کے ذریعے ایک مخصوص تاریخ اور وقت بتا کر ویکسین لگانے کے لیے بلایا جائے گا اور اس کے ساتھ صارفین کو ایک کوڈ میں بھی موصول ہو گا، اگر آپ دیے گئے ویکسین سنٹر پر نہیں جا سکتے تو آپ 1166 پر کال کر کے یا این آئی ایم ایس کی ویب سائٹ پر جا کر اپنا سنٹر تبدیل کروا سکتے ہیں، شہریوں کو ان کے لیے مختص کردہ ویکسین سنٹر پر ہی بتائی گئی تاریخ اور وقت پر جانا ہو گا۔
ہمارے ہاں کورونا کا پھیلائو روکنے کے لئے جو طریقہ آزمایا گیا وہ احتیاط پر مبنی ہے، علاج کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ ویکسین علاج نہیں صرف وائرس کو غیر موثر بناتی ہے۔ کورونا کے متاثرین کو مختلف درجوں پر کس طرح کی ادویات دی جائیں کہ ان کی بیماری اسی درجے پر ختم ہو جائے یہ تاحال طبی سائنسدانوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ پاکستان میں بہت سے ادارے ہیں۔ ہم نے دفاع، انجینئرنگ آبپاشی توانائی کی ٹیکنالوجی پر محنت کی ہے۔ ضروری ہے کہ امراض، وبائوں اور نئے طبی خطرات سے مقابلہ کرنے کا مرکز بھی فعال کیا جائے۔
ایک سوال اٹھا کہ پاکستان نے ویکسین حاصل کرنے میں تاخیر کیوں کی؟ سوال جائز ہے۔ حکومت کو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ یہ سوال نہیں ترجیحات کا معاملہ ہے۔ شہریوں کی جان بچانے کے لیے اقدامات ہمیشہ پہلی ترجیح ہوتے ہیں۔ اس ترجیح کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟