Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hawa Kisi Ki Nahi

Hawa Kisi Ki Nahi

یہ ان دنوں کی بات جب پاکستان میں نجی نیوز چینلز آنکھیں کھول رہے تھے پی ٹی وی کی اجارہ داری کے خاتمے کا آغاز ہوچلا تھا معروف لکھاری اور اینکر مجاہد بریلوی صاحب ملک کے پہلے "آزاد" اینکر ہونے کے اعزاز کے ساتھ اپنا پروگرام کرتے تھے، مختلف فکر نظریئے کے حامی مخالف سیاستدان آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرتے خوب نوک جھونک، طنز طعنے، الزامات شکوے شکائتیں ہوتیں پاکستانیوں کے لئے یہ سب نیااو ر عجیب ساتھا اس لئے بریلوی صاحب کی گڈی آسمان پر جا چڑھی ان ہی دنوں بریلوی صاحب کے پروڈیوسر نے سوچا کہ جماعت اسلامی او ر اے این پی کے ٹاپ لیڈرز کو آمنے سامنے بٹھا یاجائے، بطور ایک پروڈدیوسر آئیڈیا سپر ہٹ تھا جماعت اسلامی اور اے این پی کی آپس میں نہیں بنتی تھی ایک طرف قوم پرست اور سیکولر نظریات کی اے این پی تھی تو دوسری جانب اسکی شدید سیاسی نظریاتی مخالف جماعت اسلامی، دونوں کے لیڈر آمنے سامنے بیٹھ جاتے تو کیمرے کو وہ سب کچھ محفوظ کرنے کا موقع ملتاجسے کراچی والے چاٹ مصالحہ کہتے ہیں۔ مجاہد بریلوی صاحب نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا اور پروفیسر غفور احمد صاحب سے انٹرویو کے لئے وقت کی درخواست کی، پروفیسر غفور احمد مرحوم مرنجان مرنج قسم کے بزرگ سیاستدان تھے انہوں نے نوجوانی میں مولاناسید ابولاعلیٰ مودودی کے ہاتھ پر جو بیعت کی تو مرتے دم تک انہی کے مرید رہے، شرافت وضعداری، متانت، سنجیدگی، تقویٰ کو مجسم کیا جائے تو پروفیسر غفور احمد کھڑے ملتے ہیں، وہ سر تا پا چلتی پھرتی جماعت اسلامی تھے، ان سے وقت لے لیاگیا اور یہ نہیں بتایا گیا کہ آپ کے سامنے سخت کھردرے لہجے میں بات کرنے والا چارسدہ کے سرحدی گاندھی کا بیٹا اسفندیا ر ولی ہوگا، مقررہ دن پروفیسر غفور احمد کراچی کے اس نجی ٹی وی چینل کے دفتر پہنچے تو سامنے اسفندیار ولی کو دیکھ کر ٹھٹھک گئے یہی کیفیت اسفند یار ولی صاحب کی بھی تھی، دونوں کی نظریں ملیں اور پھر دونوں ہی نے ایک ساتھ مجاہد بریلوی صاحب کی جانب دیکھا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ذرا سیاسی صورتحال پر اچھی سی سیر حاصل گفتگو ہوجائے گی لیکن اسفندیار ولی کھڑے ہوگئے کہنے لگے یہ سب تو تب ہوگا جب میں پروفیسر غفور صاحب کے سامنے بیٹھوں گاانہوں نے میرے والد کے ساتھ اسمبلی میں کام کیا ہے، یہ میرے بزرگ ہیں، سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن میں انہیں اپنے والد کے دوستوں میں مانتاہوں، مجھے ان کے سامنے بیٹھنے کی پشتون روایات اجازت دیتی ہیں، نہ اخلاقی طور پر یہ مناسب ہے میں ان کے سامنے نہیں بیٹھ سکتا۔ مجاہد بریلوی صاحب نے اپنی سی ساری کوشش کرکے دیکھ لی لیکن پشتون زادے نہ ماننا تھا نہ مانا، اسفندیا ر ولی نے کہا میں ان کے پیروں کو تو ہاتھ لگا سکتا ہوں انکے سامنے بیٹھنے کی گستاخی نہیں کرسکتا۔

یہ بھی سن لیجئے یہ 2002ء کی بات ہے سینٹ کے الیکشن ہو رہے تھے جماعت اسلامی کے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے سامنے تجویز رکھی کیوں نہ پروفیسر غفور احمد کو سینٹ کا الیکشن لڑا دیا جائے، قاضی حسین احمد مرحوم نے پرسوچ ہنکارہ بھرا اور کہا لیکن ایم ایم اے کیسے مانے گی اور جو ووٹ کم ہیں وہ کیسے پورے ہوں گے، ڈاکٹر معراج الہدیٰ بتاتے ہیں کہ یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین تشریف لے آئے ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے کہا کہ چوہدری صاحب سے بات تو کریں، قاضی صاحب نے بات چھیڑدی، چوہدری صاحب خود بڑے وضعدار انسان ہیں اور وہ پروفیسر غفور احمد کی شرافت متانت وضعداری، سادگی اور ذہانت کے معترف تھے انہوں نے کہا اگر آپ پروفیسر غفور احمد کو سینٹ کا ٹکٹ دیتے ہیں تو جتنے ووٹ کم پڑیں گے ق لیگ دے گی، قاضی صاحب نے یہ بات متحدہ مجلس عمل کی قیادت کے سامنے رکھ دی جے یو آئی کی طرف سے مخالفت سامنے آئی وہ بھی اس نشست میں دلچسپی رکھتی تھی۔ قاضی صاحب نے انہیں سمجھایا کہ ایم ایم اے کے سارے ووٹ بھی پڑ جائیں توبات نہیں بنے گی، چوہدری شجاعت کی پیشکش پروفیسر غفور احمدکے لئے ہے لیکن جے یو آئی کا موقف نہ بدلا البتہ اتنی لچک آگئی کہ وہ کہنے لگے اچھا ٹاس کرلیتے ہیں جس پر جماعت رضامند نہ ہوئی اسی شش و پنج میں دن گزرتے چلے گئے اور الیکشن کا دن آگیا پروفیسر غفور احمد صاحب نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرارکھے تھے، نوبجے چوہدری شجاعت کا فون آگیا کہ قاضی صاحب! دسو کی کرنا ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم نے مولانا فضل الرحمٰن کو فون کیااور چوہدری شجاعت کے فون کا بتایا مولانا کچھ دیر سوچا اور کہا اچھا میں "اسے " سمجھاتا ہوں، انہوں نے اپنے امیدوار سے بات کی اور وہ سمجھ گیا الیکشن ہوا اور پروفیسرغفور احمد جیت گئے، یہ صدیو ں پرانی باتیں نہیں ہے جن حضرات کا ذکر ہے ان میں مولانا فضل الرحمٰن بھی حیات ہیں، اسفندیار ولی بھی سلامت ہیں اور چوہدری شجاعت بھی پیرانہ سالی کے باجود سیاست میں متحرک ہیں۔ یہ سیاسی حلیف بھی رہے اور حریف بھی، یہ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے رہے اور اتفاق بھی، ناراضگیاں بھی ہوئیں اور تلخیاں بھی کہ جہاں برتن ہوں وہا ں کھڑکنے کی آواز آہی جاتی ہے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ابھی بھی ایسا ہی ہوتا تو کوئی تشویش ناک بات نہ تھی لیکن ڈسکہ کے ضمنی الیکشن اور چھ مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو کچھ ہوا یہ سب برتن کھڑکنے کی نہیں بلکہ ٹوٹنے کی آوازیں ہیں، نوبت یہ آچکی ہے کہ سیاسی کارکن اپنی سیاسی قیادت کے لبوں سے جھڑنے والے "پھول "چن چن کر مخالفین کی قبروں پر رکھنے کے متمنی ہیں، سیاسی مخالفت مخاصمت سے بڑھ کر دشمنی تک پہنچ چکی ہے۔ ڈی چوک میں جس طرح احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور مصد ق ملک کے ساتھ جو ہوا، یہ آج کی سیا ست ہے۔ غیر اخلاقی رویے ٹرینڈ بن رہے ہیں "ڈی چوک " پر ڈی گریٖڈ ک سیاست ہو رہی ہے۔ ایک شعر یاد آیا

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!