Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hazara Hi Kyun, Khail Ko Samjhein

Hazara Hi Kyun, Khail Ko Samjhein

یہ لگ بھگ تین برس پہلے کی بات ہے جب اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے ریل گاڑی میں میری ملاقات مچی ہو ئی آنکھوں والی ہزارہ فیملی سے ہوئی، گورا رنگ، چینی تبتیوں کی طرح سیاہ چمکددار چھوٹی چھوٹی آنکھیں پہلی نظر میں یہی گمان ہوا کہ وہ کوئی مسلم چینی فیملی ہے لیکن جب انہوں نے برتھ پر سامان رکھتے ہوئے فارسی میں بات کرنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ کوئٹہ کے ہزارہ ہیں یہ میری کسی بھی ہزارہ فیملی سے پہلی ملاقات تھی وہ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا ایک لڑکی کے ہاتھوں پر رچی مہندی بتا رہی تھی کہ وہ حال ہی میں زندگی کے نئے سفر پر روانہ ہوئی ہے، اسکے ساتھ بیٹھا نوجوان اسکا دولہا اور دو لڑکیاں دولہن کی بہنیں تھیں، وہ ہنی مون منانے نکلے تھے اور مری میں کچھ دن گزارنے کے بعد لاہور جارہے تھے یہ آپس میں رشتہ دار بھی تھے اس لئے اس ہنی مون ٹرپ پر دلہن کی بہنیں بھی موجود تھیں، راولپنڈی سے لاہور کاسفر چھ گھنٹے کا ہے، وقت گزاری کے لئے میں نے ان سے بات چیت شروع کردی کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اورپھر جلد ہی میں اپنے مطلب کی بات پر آگیا پورے ملک میں "ہزارہ" سہمے ہوئے سراسیمہ لوگ سمجھے جاتے تھے لیکن وہ مجھے کہیں سے بھی خوف زدہ نہیں لگ رہے تھے اور یہی بات انہوں نے کہی بھی ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ بلوچستان میں انہیں سکیورٹی کے حوالے سے کچھ مشکلات ہیں لیکن ایسا ہی اوروں کے ساتھ بھی ہے پاکستان میں جتناکوئی بھی عام شخص محفوظ ہے ہم اس سے شائد کچھ کم ہوں"۔

پاکستان میں لگ بھگ دس سے پندرہ لاکھ ہزارہ بتائے جاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ ہزارہ کوئٹہ میں رہتے ہیں جہاں ان کی سب سے بڑی آبادی ہزارہ ٹاؤن ہے۔ ہزارہ قبیلے کا اصل وطن افغانستان ہے، کہتے ہیں یہ چنگیز خان کی اولاد ہیں یہ بڑے جنگجو ہوا کرتے تھے اورکسی بھی لڑائی میں ہزار ہزار کے جتھے بنا کر دشمن پر لپکتے تھے اسی بناء پر انہیں ہزار ہ کہتے ہیں اوریہ افغانستان کے جن چار صوبوں میں تھے انہیں ہزارہ جات کہا جانے لگا۔ یہ ننانوے فیصد اہل تشیع اور اسماعیلی مسلک سے ہوتے ہیں البتہ بہت ہی کم تعداد میں سنی العقیدہ بھی ہیں، بلوچستان سے افغانستان کا کھلا بارڈر دونوں اطراف کے شہریوں کو بلاخوف و تردد آنے جانے کی اجازت دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ افغانی شہری ہی اس "سہولت " سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ پاکستان میں آبستے ہیں یہاں ملازمتیں اور کاروبار کررہے ہوتے ہیں۔ کوئٹہ کو تو جانے دیجئے اسلام آباد کی سبزی منڈی میں "فارسی بان" سرعام آلو پیاز بیچتے دیکھے جاسکتے ہیں اسی لئے کم از کم مجھے سانحہ مچھ میں قتل ہونے والے سات شہریوں کی لاشوں کے حوالگی کی افغان حکومت کے مطالبے پر حیرت نہیں ہوئی، دیگر افغان شہریوں کی طرح یہ ہزارہ بھی سرحد عبور کرکے اپنے دوسرے گھر آپہنچتے ہیں، ہزارہ ٹاؤن میں ان کے عزیز واقارب دوست احباب کے گھر موجود ہیں جہاں یہ بلاخوف و خطررہتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔

ان حقائق کو ایک طرف رکھ کر اس سوال کاجواب تلاش کیا جائے کہ آخر تھوڑے تھوڑے عرصے بعد دہشت گردہزارہ افرا دکو ہدف کیوں بناتے ہیں تو پھیلائے گئے عمومی تاثر کی بنیاد پر ایک ہی رائے سننے کو ملے گی کہ ان بیچاروں کو فرقہ وایت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے یہ بظاہر تو سچ ہے لیکن ادھورہ، مکمل سچ کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹنے ہوں گے، دشمنوں کی سازشوں چالوں کو سمجھنا ہوگا، اب تو اطلاعات تک رسائی آسان ہوچکی ہے، ٹاپ سیکرٹس پر آج لکھی گئی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ 2014ء میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی "را" کے سابق افسر آر، کے یادیو نے اپنی کتاب مشن آراینڈاے ڈبلیو میں لکھا ہے کہ اندرا گاندھی نے 1967ء میں انٹیلی جنس بیورو کے سینیئر افسر آر این کاؤکے ساتھ مل کر پاکستان توڑنے کا خفیہ منصوبہ بنایا تھاجسکا مقصد مشرقی پاکستان، بلوچستان، خیبر پختونخواہ میں بغاوت کے جذبات بھڑکا کرانہیں علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا اسے "کاؤ پلان " کا نام دیا گیا تھااس کاؤ پلان کے پہلے حصے میں لسانی عصبیت کے کلہاڑے سے پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ ڈالا گیااور اب دشمن فرقہ واریت کے خنجر سے مسلح ہے اور وہی کھیل کھیل رہا ہے، اصول وہی ہے کہ دواکائیوں کو لڑا دیا جائے اکہتر میں بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا اور اب شیعوں اور سنیوں کو آمنے سامنے لایا جارہا ہے، ہزارہ اپنے خدوخال کے سبب الگ تھلگ ہوتے ہیں، انکی غالب ترین اکثریت اہل تشیع ہے پھر یہ سفاک دہشت گردوں کا آسان ہدف ہیں۔ اسلئے دشمن اپنے کارندوں کے ذریعے ان پر جھپٹ پڑتا ہے۔

سب سے اہم بات ہزارہ کمیونٹی کے خلاف کسی بھی دہشت گردی کے بعد ملک بھر میں منظم انداز میں کیا جانے والا احتجاج بھی دشمن کے مقاصد پورے کررہا ہوتا ہے ملک بھر میں دیئے جانے والے دھرنے کہیں نہ کہیں نفرت کو بھی ہوا دے رہے ہوتے ہیں ابھی چند روز قبل مچھ میں ہونے والی سفاکیت کا معاملہ ہی دیکھ لیں تین جنوری 2021ء کو برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ "ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل نے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد میتوں کو ہزارہ ٹاؤن کی امام بارگاہ ولی العصرمنتقل کردیا ہے "لیکن پھر وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے یہ لاشیں امام بارگاہ سے سڑک پر پہنچا دیں؟ افغانستان حکومت سات شہریوں کی لاشیں مانگ رہی تھی، ان کے لواحقین بھی تدفین چاہتے تھے، ان کے جید علماء بھی دفنانے کا کہہ رہے ہیں لیکن کچھ عناصر اس تدفین میں رکاوٹ ڈالے ہوئے تھے۔ ان ہی عناصر کے اس رویئے کو وزیر اعظم نے بلیک میلنگ سے تعبیر کیا تھا جسے لواحقین کے سر منڈھ دیا گیا۔ کوئٹہ میں موجود وفاقی وزیر نے تو "لواحقین " سے کامیاب ہونے والے مذاکرات کا پرچہ بھی کیمروں کے سامنے لہرا دیا تھا۔۔۔ وقت سچ میں بہت نازک ہے ہمیں سو نہیں ایک ہزا ر بار سوچنا ہوگاکہ ہم کہیں نادانستگی میں دشمن کے اطمینان کا سبب تو نہیں بن رہے ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو اور ہم اسکے مذموم ایجنڈے کی تکمیل میں حصہ ڈال رہے ہوں مگراس پر کون سوچے گا کون بات کرے گا کہ ہماری قیادت تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سلام کلام پر بھی راضی نہیں خدارا وطن کی خاطر قریب ہوں جو کھیل کھیلناہے کھیلیں لیکن بچے کھچے پاکستان کی سالمیت کو تو سامنے رکھیں کہ ہم اب کسی اورکاؤ پلان کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے!