دنیا کی ترقی کے پیچھے دو ہی چیزیں ہیں، ایک آئیڈیاز اور دوسری ضرورت، ضرورت کے ہاتھ آئیڈیاز تراشتے ہیں اور ریسرچ، تحقیق، ان آئیڈیاز کو خیال کی دنیاسے کھینچ کر سچائی کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے، اس ترقی کا کھرا کھوجنا شروع کریں، تو آپ سیدھا آئیڈیا ز تک جاپہنچیں گے، دور نہیں جاتے، اپنے پڑوس ہی میں جھانک لیتے ہیں، بڑی بڑی ایجادات کو جانے دیجئے۔ ہمارے گھروں کی خواتین پھول جھاڑو سے بخوبی واقف ہوں گی، یہ ایک طرح کی گھاس کے نرم نرم پھول یا بور ہوتے ہیں، اس جھاڑو کا کمال یہ ہے کہ یہ دھول شول بھی نکال باہر کرتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی عمر تنکے والے جھاڑو سے کہیں کم ہوتی ہے اور اگر اس پر پانی گرجائے، تو یہ کام کا نہیں رہتا، اسکے نرم نرم بور والے تنکے آپس میں چپک جاتے ہیں۔ اس مسئلے کاحل چینی دوستوں نے سوچ لیا اور پلاسٹک کے نرم نرم بور والے تنکوں کے جھاڑو بنا کر ہماری مارکیٹ میں ڈال دیئے۔ لیجئے اب یہ جھاڑو وبائی مرض کی طرح خیبر سے کراچی تک پھیل چکا ہے، اب پھول جھاڑو قصہ پارینہ ہونے کو ہے بالکل اسی طرح جیسے "وی سی آر، ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو، ٹیلی وژن" اب دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔
دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اڑن طشتریاں اب حقیقت ہونے کوہیں، مریخ پر بسنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں " مصنوعی ذہانت " نے انقلاب برپا کر دیا ہے، روبوٹ فوجی بنائے جارہے ہیں، چین نے تو روبوٹ نیوز کاسٹر تک بنا ڈالا ہے اور اس بات کو بھی دو برس ہوچکے ہیں، بجلی سے چارج ہونے والی بنا ڈرائیور کے گاڑیاں بن رہی ہیں، ایک جاپانی کمپنی ایسی برقی کار بنا چکی ہے، جو 310کلومیٹر تک کا سفر طے کرسکتی ہے، مزے کی بات یہ کہ اسے دوبارہ چارج ہونے کے لئے صرف دس منٹ لگیں گے اوروں کو جانے دیجئے رواں ماہ تین فروری کو اپنے "ارطغل" کے دیس میں کارسن اتک نامی کمپنی کی بنا ڈرائیور الیکڑک بس میں ترک صدر طیب اردوان بھی سفر کر چکے ہیں، تیزی سے بدلتی دنیا، ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن تبدیل کر چکی ہے اور بہت کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب آپکے آرڈر کی تکمیل کے لئے کوئی ڈارون(اڑن طشتری) اڑتا ہوا آئے گا اور آپکو دروازے پر گرما گرم پیزاتھما جائے گا، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس پیزے میں جس نرم گرم بوٹیوں کی لذت محسوس کر رہے ہوں، وہ کسی مرغی، گائے، بھیڑ، بکرے کا نہ ہوں بلکہ کسی جاندار کی ہوں ہی نہیں، سائنس دان مصنوعی گوشت بنانے میں لگے ہوئے ہیں، تجرباتی طور پر جانوروں کے خلیوں سے مصنوعی "جدید" گوشت بن چکا ہے۔
دنیا کیا سے کیا ہونے والی ہے لیکن ہم کیا کررہے ہیں؟ کیا ہم اس آنے والے دور کی تیاری کررہے ہیں، اس سوال کا جواب مایوسی کے قریب موجودنفی میں ہے، دنیا کی یہ ترقی سوچنے والے ذہنوں اور آئیڈیاز کو حقیقت میں لانے والے محققین کی بدولت ہے، تحقیق ایک مشکل، پیچیدہ اور مہنگا کام ہے، خود ریسرچر اسے مہنگی عیاشی کہتے ہیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لئے یہ مہنگی عیاشی کرنی پڑتی ہے، دنیا کے بڑے بڑے ملٹی نیشنل ادارے یونیورسٹیو ں سے جڑے رہتے ہیں بلکہ اب تو ان اداروں کی یونیورسٹیاں اور ریسرچ سینٹرزہیں، جس کا سارا خرچ یہ ادارے اٹھاتے ہیں، یہ اپنی پریشانیاں لے کر ان ریسرچ سنٹروں میں آتے ہیں، جہاں ان پریشانیوں کو دور کرنے کی تگ و دو ہوتی ہے، اس کام کے لئے ذہین، محنتی، ریسرچر درکار ہوتے ہیں، جنہیں عام لوگوں سے بہت زیادہ پرکشش تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں، ان کی نازبرداریاں اٹھائی جاتی ہیں اور ہمار ے یہاں انہیں ذہنی مریض بنایاجا رہا ہے، ملک میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم بنی ہوئی ہے، جو مظاہرے احتجاج کرتی رہتی ہے کہ ان کے پاس کرنے کو اور کچھ ہے جو نہیں، بے روزگار بندہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ ؟
پی ایچ ڈی ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن کے صدراس تنظیم کے پلیٹ فارم سے بے روزگار اسکالرز کے لئے آوازاٹھاتے رہتے ہیں لیکن آج تک ان کی آواز اتنی بلند نہیں ہوئی کہ مسند اقتدار پر براجمان افراد تک پہنچ سکے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت ملک میں تین ہزار پی ایچ ڈی اسکالرز بے روزگار ہیں، میرا خیال تھا کہ ان بے روزگاروں میں بڑی تعداد عربی، اردو، سیاسیات اور آرٹس کے مضامین کے اسکالرز کی ہوگی لیکن بعد از معلومات میری یہ غلط فہمی دور ہوئی اور تشویش بڑھی کہ جناب! ان بے روزگار اسکالرز میں بمشکل دو فیصد ان مضامین کے ہوں گے، اٹھانوے فیصدفزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور سائنسی مضامین کے ہیں، ان اٹھانوے فیصد بے روزگاروں میں بھی ستر فیصد وہ ہیں، جنہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالر شپس کے لئے مقابلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، یہ اسکالرز جرمنی، برطانیہ، بلجیم، سویڈن اور دیگرترقی یافتہ ممالک سے ٖڈگریاں لے کر آئے ہیں لیکن حکومت کے پاس انہیں کھپانے کی جگہ نہیں، اوپر سے ان پر پابندی ہے کہ یہ پی ایچ ڈی کے بعد پانچ برس تک ملک سے باہر ملازمت نہیں کرسکتے، اب اپنے ملک میں ملازمت نہیں اور بیرون ملک جا نہیں سکتے، تو یہ کیا کریں؟
کیا یہ بھی پستولیں اٹھالیں اور ڈکیتیاں مارنا شروع کردیں۔۔۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ جو اس خوفناک مسئلے کی حساسیت کو نہیں سمجھ رہایا سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا۔ درحقیقت خودغرضی بیوروکریسی اور منجمد اذہان کے امتزاج نے ہمارے لئے چکنا گھڑا ہے، جن پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا، اگر ایسا ہے تو اس سے خوفناک بات کیا ہوگی اور جو ہوگی سو ہوگی بس یہ دیکھ لیجئے کہ آنے والی دو دہائیوں میں دنیا اتنا آگے نکل چکی ہوگی کہ آپ خود کوپتھر کے دور میں محسوس کریں گے، تب آپ اپنا سرکسی پتھر سے پھوڑنے کے سواکچھ نہ کرسکیں گے۔