نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا میچ سے چند منٹ پہلے میدان میں نہ آنے اور وطن واپسی کے فیصلے پر آپ کو حیرت ہوئی ہوگی مجھے نہیں ہوئی، آپ کی حیرت بھی دور ہوجائے گی ذرا میرے ساتھ کلینڈر کے ورق الٹ کر اٹھائیس جنوری 1993ء کی سرد صبح امریکی ریاست ورجینیا پہنچیں جہاں سی آئی اے ہیڈ آفس کے سامنے فائرنگ میں دنیا کی طاقتور ترین ایجنسی کے دو اہلکار قتل ہوجاتے ہیں، یہ نائن الیون سے پہلے امریکہ کے لئے دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا جس میں قاتل ایسے غائب ہوا جیسے اسے زمین کھا گئی ہو یا آسمان نے اچک لیا، ان کے پاس قاتل کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی، تحقیقات سڑک پر پڑے گولیوں کے دس خولوں او ر ایک گولی سے شروع ہوئیں، قاتل کے خاکے بنائے جاتے ہیں، گولیوں کے خول سے پتہ چلتا ہے کہ خودکار رائفل استعمال ہوئی، ورجینیا اور آس پاس کی ریاستوں کے اسلحہ ڈیلروں سے ایک سال میں فروخت ہونے والی اے کے 47رائفلوں کے بارے میں معلومات لی جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار خریداروں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بھی علم ہوتا ہے کہ تین روز پہلے بھی ایک رائفل فروخت ہوئی ہے۔ ایف بی آئی کے ایجنٹ خریدار کے دیئے گئے پتے پر پہنچتے ہیں لیکن خریدار نہیں ملتا اسکے ساتھ کمرے میں رہنے والا شخص بھی اسکے بارے میں زیادہ نہیں بتا پاتا۔ کمرے کی تلاشی کے دوران ایک کلاشن کوف، پستول اور گولیاں برآمد ہوتی ہیں۔
ایف بی آئی قاتل کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیتی ہے لیکن پتہ چلتا ہے کہ قاتل ملک سے نکلنے میں کامیاب ہو چکا ہے، وہ اب کہاں ہے اور کیا کررہاہے امریکہ اسکا تعاقب جاری رکھتا ہے، امریکہ قاتل کی گرفتاری پر بیس لاکھ ڈالر کاا علان کرتا ہے اس پرکشش اعلان کے نتیجے میں چار برس بعد پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی گھنٹی بجتی ہے فون کرنے والا کہتاہے کہ وہ سی آئی اے ایجنٹوں کے قاتل کے بارے میں جانتاہے اور اسے پکڑوا بھی سکتا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے فورا حرکت میں آتے ہیں۔ اس شخص سے ملاقاتیں ہوتی ہیں معاملات طے پاتے ہیں اور پھر پندرہ جون 1997کوڈیرہ اسماعیل خان کے ایک ہوٹل کے کمرے کا دروازہ بجایا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اٹھو نماز کا وقت ہورہا ہے، دروازہ کھلتا ہے اور سی آئی اے اہلکار جھٹ سے اندر داخل ہو کر اسے قابو کر کے ہتھکڑی لگا لیتے ہیں۔ اس کے فنگر پرنٹ لئے جاتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی مطلوبہ شخص ایمل کانسی ہے، ایمل کانسی کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد لایاجاتا ہے جہاں چند روز قیام کے بعد اسے امریکہ پہنچا دیاجاتا ہے جہاں ا س پرمقدمہ چلتا ہے۔ ایمل کانسی اقبال جرم کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ اسے عراق میں امریکی جارحیت پر غصہ تھا وہ مسلم ممالک میں امریکی پالیسیوں پر برہم تھا جس پر اس نے یہ انتہائی انتقامی قدم اٹھایا۔ امریکہ اپنے دو شہریوں کے قاتل کو سات سمندر پار سے پکڑ لایا تھا۔ اس پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلنے لگا بلاخر اسے سزائے موت سنائی گئی اور 14نومبر 2002میں زہر کا انجکشن دے کرایمل کانسی کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا۔
جوناتھن پولارڈ نامی امریکی یہودی کا بھی سن لیجئے وہ امریکی بحریہ میں تجزیہ کار کی حیثیت سے ملازم تھا80۔ ء کی دہائی میں پولارڈ کی اسرائیلی فضائیہ کے ایک کرنل سے ملاقات ہوئی۔ کرنل نے پولارڈ سے ڈیل کی۔ اسے اسرائیل کے لئے کام کرنے کا کہا۔ بھاری رقوم کی پیشکش کی۔ بتایا کہ یہ یہودیوں کی عظیم سلطنت کی خدمت بھی ہے اور پیسے الگ ملیں گے۔ پولارڈمان گیا اسے اسرائیل کے لئے کام کرنے میں زیادہ دیر نہیں سوچنا پڑااور پھر اس نے ہزاروں حساس دستاویزات اسرائیل کے حوالے کیں لیکن وہ جلد ہی امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ریڈار میں آکر پکڑا گیا۔ اس پر مقدمہ چلا عمر قید کی سزا ہوئی، شروع شروع میں تو اسرائیل نے حکمت عملی کے تحت پولارڈ کو پہچاننے سے بھی انکار کردیااور درپردہ اسکی رہائی کے لئے کوششیں کرتا رہا لیکن بات نہ بنی تو یہودی ریاست کھل کر اپنے شہری کے لئے میدان میں آگئی جوناتھن پولارڈ کی قید واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تعلقات میں کھنچاؤ کا سبب بن گئی دونوں ریاستوں کے صدور کی سطح تک اس معاملے پر بات ہوتی رہی۔ امریکہ اپنے نظام کی وجہ سے جوناتھن کی رہائی سے انکاری تھا اور اسرائیل پیچھے ہٹنے پرتیار نہ تھا۔ یہودیوں کا دباؤ کام کر گیا۔ 2015میں جوناتھن کو پیرول پر رہائی ملی اور بلاخر 2020ء میں اسے رہا کردیا گیا، پولارڈ جب اسرائیل پہنچا تو اسکا استقبال کسی ہیرو کی طرح کیا گیا۔ اسے لینے کے لئے کوئی اور نہیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ائیر پورٹ پر تھا۔
ان دو واقعات کے پیچھے ریاست کی ذمہ داری اوریقین دہانی ہے، فرسٹ ورلڈ کہلانے والے ممالک میں ریاست اور شہری کے درمیان ایک شفاف معاہدہ طے ہوتاہے جس کی رو سے شہری کی عزت، جان، مال کی سلامتی ریاست اپنے ذمے لیتی ہے۔ اس عمرانی معاہدے کے تحت جواب میں شہری ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے ان قوانین کی پابندی کرتا ہے جو ریاست طے کرتی ہے، اڑتالیس لاکھ سے کچھ زیادہ نفوس اور سات سو جزائر پر مشتمل نیوزی لینڈ بھی ان ہی ممالک میں ہے، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم بھلا کس طرح اپنے ہم وطنوں کی سلامتی سے متعلق اطلاع کو نظر انداز کرکے اپنی سیاسی زندگی کا خاتمہ کرتی؟ اگر نیوزی لینڈ کی ٹیم راولپنڈی میں کھیل بھی لیتی تو میڈیا سرخی جمارہا ہوتا کہ نیوزی لینڈکی وزیراعظم نے کیوی ٹیم کی زندگی خطرے میں ڈال دی۔۔۔ جس کا جواب جیسنڈا آرڈن کے پاس نہ ہوتا۔ ان ممالک میں کھلاڑیوں کو اوتار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ ریاستیں تو اپنے عام شہریوں کے لئے بھی لڑمرجاتی ہیں یہ تو پھر ان کے ہیرو تھے جیسنڈا نے وہی کیا جوریاست اور شہری کے درمیان معاہدے کے کسی کسٹوڈین کوکرنا ہوتا ہے۔ ہاں جیسنڈا اپنے پاکستان کی وزیر اعظم ہوتیں تو دوسری بات تھی تب وہ یہ معاہدہ بھول جاتیں جیسے ہم ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں بھلائے بیٹھے ہیں!