منافقت کا لفظ بہت سخت ہے لیکن مجھے اسکا متبادل نہیں سوجھ رہا، میڈیا کا پہلا کام قارئین، ناظرین عوام کو باخبر رکھنا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے عمومی اصول کے مطابق" بڑے" سے متعلق خبر بھی بڑی ہی ہوتی ہے جو جتنا بڑا ہوتا ہے اسے اسکرین پر جگہ بھی اتنی ہی بڑ ی ملتی ہے۔ میڈیا کے آئین میں یہ طے شدہ قانون ہے، جسے سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی خبرنامے کا "رن ڈاؤن" بنایا جاتا ہے۔ اسی لئے آج دلیپ کمار کو ہر چینل کی ہیڈ لائن میں دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ دلیپ کمار واقعی بڑا اداکار تھا، اس نے ایک زمانے کو متاثر کیا، ایک وقت تھا کہ دلیپ کمار جو پہنتا وہ لوگوں کے پہناوے ہوجاتے، وہ ہی فیشن بن جاتا، اسکے ماتھے پر جھولتی لٹ کے لئے لوگ ہیئر سیلونز میں کیا کیا نہ کرتے، اسکے ڈائیلاگ سینما سے گھروں میں کسی وبا کی طرح پہنچتے تھے۔ اسکی نقالی کرنے والے پذیرائی پاتے، یہ سب ٹھیک تھا۔ وہ اپنے فن کا ماہر تھا، اس نے محنت کی، یوسف خان سے دلیپ کمار تک کا سفر، محض پشاور سے بمبئی تک کی ہجرت نہیں۔ دلیپ کمار نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ جو کچھ پایا اس میں وہ شہرت بھی ہے، جس کی اک دنیا تمنااور لاکھوں جتن ہوتے ہیں، دلیپ کمار شہرت کے جس مقام پر تھے وہاں میڈیا کا متوجہ ہونا فطری بات تھی۔ سو وہ خبروں میں رہے کیا کھاتے ہیں کیا پہنتے ہیں، کہاں جاتے ہیں، کس سے مسکرا کر بات کرتے ہیں۔۔۔ سب میڈیا کے لئے اہم تھا، اب ایسے اہم شخص کی عمر کی نقدی ختم ہوجائے، تویہ خبر خبرناموں کی ہیڈلائنز میں نہ ہو تو تعجب ہو کہ میڈیا کا الگورتھم ہی شہرت کے گردش کرتا ہے۔ سو آج صبح سے ہر چینل کی پہلی خبر میں دلیپ کمار ملے۔ ان کی زندگی پر خصوصی نیوز پیکیجز دیکھ رہا ہوں، ان پر فلمائے گئے گانے اسکرین کی زینت بن رہے ہیں، معزز شخصیات انہیں خراج تحسین پیش کررہی ہیں۔ سب ہی کا کہنا ہے کہ دلیپ کمار کا خلاء کبھی پرنہ ہو سکے گا، ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
میں یہ سب دیکھ رہا ہوں اور میری آنکھوں میں ایک نورانی چہرہ پھر رہا ہے ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر بھی تو چند روز ہوئے ہم سے رخصت ہوئے، وہ بھی اپنے شعبے کا کوہ ہمالہ تھے۔ ایک بلند پایہ علمی شخصیت تھے، عالم دین، بہتر ین مترجم، مصنف، مدبر، مفکر، پاکستان میں بائیس ہزار مدارس کے بورڈ وفاق المدارس کے صدر، تحریک ختم نبوت کے سابق سربراہ، جامعہ اسلامیہ مدینہ سعودی عرب اور جامعۃالازہر مصر سے فارغ التحصیل۔۔۔ وہ عرب و عجم کے علمی حلقوں میں کسی بھی شعبے کے دلیپ کمار سے زیادہ معروف تھے۔ انہوں نے نسلوں کی تربیت کی، اک عالم ان کا گرویدہ، معتقد تھا، عجیب بات یہ کہ عجم سے زیادہ عرب دنیا ان کی معترف رہی، گئے برسوں میں جب عراق کو ہانک کر جنگ کے الاؤ میں جھونکا جارہا تھا تو اس جنگ کو روکنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں پاکستان ہی نہیں اس خطے سے ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب سے درخواست کی گئی اور انہیں اس وفد میں شامل کیا گیاجس میں اس وقت ترکی کے نجم الدین اربکان بھی موجود تھے، لیکن میڈیا کا الگورتھم ان کی رحلت پر بھی ان کی جانب متوجہ نہیں ہوا، کسی بھی چینل کے خبرنامے میں اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع رن ڈاؤن میں پہلی دس خبروں میں جگہ نہ پاسکی۔ کراچی پریس کلب کے سینئر رکن اور ہمارے دوست خلیل ناصرکے مطابق ایک چینل میں تو کچھ "عاقبت نااندیشوں " نے بحث و مباحثے کے بعد اس خبر کو اسکرین کی تہہ میں دوڑتے لفظوں تک پہنچایا، جسے عوام "پٹی" کہتے ہیں۔
مان لیا کہ میڈیا کی کوریج کا عمومی اصول شہرت و مقبولیت ہے، اسی فارمولے کے حساب سے جب حریم شاہ جیسی متنازعہ بی بی کسی کو تھپڑ بھی مارتی ہے تو اسکی گونج تمام میڈیا ہاؤسز میں سنائی دیتی ہے، وہ اپنی شادی کا ٹوئٹ کرتی ہے اور نیوزچینلز اس پر بریکنگ نیوز دینے لگ جاتے ہیں، کسی مغنیہ کی آواز خاموش ہوتی ہے تو اینکرز یہ خاموشی لے کر اسکرین پر آجاتے ہیں اسکے سدا بہار گانے سنائے، دکھائے جاتے ہیں، ارے یہ تو جانے دیجئے اپنا میڈیا پچاس، پچاس برس پہلے گزر جانے والوں کی سالگرائیں تک نہیں بھولتا۔ خبرنامے میں نوے سیکنڈ کا نیوز پیکج چل رہا ہوتا ہے آج ہی تھر کی گائیک مائی بھاگی کی پینتسویں برسی کی خبر ایک نیوزچینل نے ہیڈلائن میں دی۔ یہ سب ٹھیک اپنی جگہ درست لیکن میڈیا کایہ الگورتھم اس وقت ساکت کیوں ہوجاتا ہے جب معاملہ کسی عالم دین یا علمی شخصیت کا ہو، اس وقت سارے اصول قواعد کہاں رہ جاتے ہیں اس کورونا کی وبا میں بڑے بڑے علماء کرام کا انتقال ہوا، ہمارے میٖڈیا نے کتنوں کی نماز جنازہ یا تدفین کو ہیڈلائن میں لیا؟ ان کے لئے کوئی نیوز پیکج بنوایا، میں نے آج تک اپنی پوری حیاتی میں کسی عالم دین کی برسی کی خبر نہیں سنی، سمجھ نہیں آتا کہ جب معاملہ کسی عالم دین کو خراج تحسین یا خراج عقیدت پیش کرنے کا ہو تواس وقت ہمارے اینکرز کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں، کیمرے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، پاکستان میں مذہب پسند یا راسخ العقیدہ مسلمان اقلیت میں تو نہیں، کوئی ایسا سمجھتا ہے تو استاذ الساتذہ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرکے جنازے کی ہی تصاویر دیکھ لے، جامعہ بنوری ٹاؤن کے آس پاس کی سڑکیں کم پڑ گئی تھیں، یہ شہر کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا لیکن ایک عالم دین کا تھا اس لئے میڈیا دیکھ نہ سکا، یورپ کا میڈیا ہم سے زیادہ فلم فیشن کو اہمیت اور کوریج دیتا ہے لیکن جب ویٹی کن سٹی کے ائیرپورٹ سے اڑنے والا طیارہ پوپ صاحب کو لے کر کہیں پہنچتا ہے تو فاکس نیوز سے لے کر سی این این تک سب کی ہیڈلائنز میں یہ خبر موجود ہوتی ہے۔ ہمارے لئے کیا مسئلہ ہے؟ ہم اپنے ناظرین کو جاننے کے مکمل حق کیوں نہیں دیتے، کسی کے بھی حق کے لئے آواز اٹھانے والوں کی جانب سے یہ حق تلفی شرمناک نہیں !