Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ghaddar Kon? Hukumat Hosh Ke Nakhun Le

Ghaddar Kon? Hukumat Hosh Ke Nakhun Le

"تعلیم" انسان کو ایک راستہ فراہم کرتی ہے، "تحقیق" اسے سوچنے، سمجھنے اور کھوج لگانے کے مواقع فراہم کرتی ہے، "تربیت" معاشرے میں ڈھنگ سے رہنے کا ہنر سکھاتی ہے اور ترویج نت نئی چیزیں اخذ کرکے انسان کو کامیابی کی معراج پر لے جاتی ہے۔ یہ چار۔ یعنی تعلیم، تحقیق، تربیت اور ترویج جس قوم کے پاس ہوں وہی ترقی کرتی ہے، وہی سمت کا بھی تعین کر لیتی ہے، اور جس قوم کے پاس سمت نہیں ہوتی وہ بے منزل کی مسافر بن جاتی ہے۔ ہم اپنی مثال لے لیں، بطور قوم ہم ہجوم کے سوا کچھ نہیں، نہ تو ہماری کوئی انفرادی سمت متعین ہے اور نہ ہی بطور قوم ہم کہیں دنیا میں شمار ہوتے ہیں۔

نہ ہمیں کوئی صحیح سمت دکھانے والا مل رہا ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی رہبر مل رہا ہے جس کے پیچھے "لبیک" کہتے ہوئے منزل تک پہنچیں۔ صرف بھیڑ بکریوں کی طرح سر نیچے پھینکے چلتے جا رہے ہیں۔ اسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہہ لیں یا کچھ اور لیکن یہ بات طے ہے کہ ہمارے اندر تعلیم و تحقیق کو صرف اس لیے نہیں پروان چڑھایا جا رہا کہ یہ قوم کہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑی نہ ہو جائے۔ بس انھیں ادھر اُدھر کی سرگرمیوں میں اُلجھائے رکھو، یہ بھی خوش اور ہم بھی خوش!

بیمار ذہنیت دیکھیے کہ ایک شخص اُٹھا، اُس نے رات گئے پولیس میں درخواست دی کہ فلاں بن فلاں بن فلاں سیاسی افراد پر غداری و بغاوت کا مقدمہ درج کر دیجیے تو مقدمہ درج کر دیا گیا۔ جس میں پولیس مدعی بن گئی۔ حد تو یہ ہے کہ جن 43 افراد پر غداری کا پرچہ کٹا، اُن میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر بھی شامل ہیں۔

اب کامن سینس کا لیول چیک کریں کہ جناب جس کشمیر پر بھارت کی نظر ہے، اور بھارت و مغربی میڈیا وہاں کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی "بریکنگ نیوز" بنا کر چلاتا ہے تو سوچیں کہ اُس نے اس بھونڈی حرکت پر کتنا واویلا کیا ہوگا۔

چلیں یہ تو شکر ہے کہ یہاں کیبل پر انڈین نیوز چینل نہیں دکھائے جاتے ورنہ تو عوام مارے شرم کے کشمیر کی بات ہی نہ کرتے۔ اور پھر ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں، ایک طرف ہم، کشمیر بنے گا پاکستان، کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف ایسی حرکتیں کر کے کشمیریوں کو مایوس کر رہے ہیں۔

خیر اس خبر کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تمام افراد اپوزیشن جماعت یعنی ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مریم نواز وغیرہ اور اس کے علاوہ تین سابق جنرل بھی اس ایف آئی آر میں شامل ہیں۔ فی الحال تو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی وزیر اعظم کی وساطت سے اس ایف آئی آر کے حوالے سے تردید کر چکے ہیں کہ اس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں، لیکن محض ایک عام شہری کی شکایت پر پولیس کی جانب سے ملک کی ایک سیاسی جماعت کی صفِ اول کی کم و بیش پوری قیادت کے خلاف غداری کے مقدمے کا درج کر لیا جانا بہرحال سخت حیرت انگیز بات ہے۔ یہ مقدمہ لاہور کے شاہدرہ پولیس تھانے میں بدر رشید نامی ایک شخص کی شکایت پر درج کیا گیا۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی اس قسم کے مقدمات درج ہوئے، وہ کسی "عام شہری" ہی کی شکایت پر درج کیے گئے۔ اور تاریخ کی مماثلت یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت کے تمام وزیر اس قسم کے اقدام پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کر تے ہیں لیکن ایک آدھ وزیر ڈرانے دھمکانے کے لیے بھی رکھا ہوتا ہے جیسے اس بار حکومت پنجاب کے ایک سینئر وزیر یہ ذمے داری نبھا رہے ہیں، جنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں ایف آئی آر میں درج تمام ملزمان کی گرفتاری ضروری قرار دیتے ہوئے لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ پر زور دیا کہ وہ اس مقصد کے لیے ٹیم تشکیل دے کر کارروائی شروع کریں۔

مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کے خلاف بغاوت اور غداری جیسے سنگین الزامات کے تحت اس غیرمعمولی مقدمے کا اندراج ظاہر ہے کہ شاہدرہ تھانے کے انچارج نے صوبے اور شہر کی پولیس کے سربراہوں نیز وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ کے علم میں لائے بغیر اور اجازت لیے بغیر نہیں کیا ہوگا۔ ایسی صورت میں کیا یہ سمجھا جائے کہ اتنی بڑی اور دور رس نتائج کی حامل کارروائی حکومت پنجاب نے وزیراعظم کو لاعلم رکھتے ہوئے کر ڈالی حالانکہ وہ مرکز ہی نہیں صوبے کی حکمراں جماعت کے سربراہ بھی ہیں؟

اور پھر دوسری بات یہ ہے جب تک عدالتیں کسی کو غدار ثابت نہ کریں یا کسی پر غداری کا لیبل نہ لگائیں، کیا کسی کو غدار کہنا درست عمل ہے؟ ایم کیو ایم کے بانی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے، عدالتوں کی جانب سے انھیں غدار کہا گیا اور اُن کا نام یا تصویر شایع کرنے پر بھی پابندی لگائی۔

لہٰذاعوام نے انھیں دل سے تسلیم کیا۔ لیکن یہاں تو غداری کے سرٹیفکیٹ ایسے بانٹے جا رہے ہیں جیسے یہ کوئی اعلیٰ "اعزاز" ہو۔ پھر ہماری تاریخ بھی تو "سیاسی غداروں " سے بھری پڑی ہے، مثلاََ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو الغرض تمام سابق وزرائے اعظم کو ہم غداری کے تمغات دے چکے ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ نواز شریف سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے وزیر اعظم نہیں بنے تھے، بلکہ اسی عوام اور اسی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں 3 دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا تھا۔ اور اب اگر تین دفعہ کے وزیرا عظم کو غدار کہا جا رہا ہے تو جن اداروں نے انھیں وزیر اعظم بنایا، پھرکہنا پڑے گا کہ انھوں نے ایک غدار کوکیسے تین دفعہ وزیراعظم بننے دیا۔

لہٰذاآپ کرپشن کے مقدمات بنائیں، ان سیاستدانوں نے جو غلطیاں کی ہیں انھیں اُس پر ایسی سزا دیں کہ دوبارہ کوئی کرپشن کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے، لیکن ایسی حرکتیں کہ فلاں غدار ہے اور فلاں محب وطن اس حوالے سے فیصلے عدالتوں پر چھوڑ دیں اور ہاں اگر حکومت کا اس مقدمے سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر اس مقدمے کو فوری ختم کروائے، اور اگر یہ سب کچھ حکومتی ایما پر ہوا ہے تو یہ حکمراں جماعت کی صفوں میں ابتری کا نہایت تشویشناک مظاہرہ ہے جسے پارٹی قیادت کے لیے فوری توجہ طلب ہونا چاہیے اور وزیراعظم اگر سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمے بنانے کو غیرجمہوری رویہ ہونے کی بنا پر درست نہیں سمجھتے تو اس معاملے کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے اور ختم کرنے میں انھیں اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم بھی اپنے لب و لہجے کا خیال رکھیں اور ملکی اداروں کو مقدم جانتے ہوئے اُن کا احترام کریں اور قومی راز افشاں کرنے سے گریز کریں۔