آج 14 اگست پاکستان کی آزادی یعنی مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کا دن ہے، "آزادی" کی قیمت کیا ہو سکتی ہے؟ یہ ایک جانور، بچہ اور ایک نابینا بھی بتا سکتا ہے کہ آزادی فضا میں گھلی ہوئی ہے کہ نہیں۔ ہوا، بادل، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت کو آپ محسوس کر سکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔
آزادی کا بھی ایسا ہی قصہ ہے۔ یہ کوئی برتن یافیتہ بند تحفہ نہیں بلکہ احساس کا نام ہے۔ ایک دوسرے کے احساسات کے احترام کا نام ہے اور جس معاشرے میں عدم برداشت اور دلیل ختم ہو جائے وہاں آزادی ایک دھوکا رہ جاتی ہے اور یہ دھوکا ہم برسوں سے کھا رہے ہیں، کیوں کہ ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ آخر ہماری موجودہ صورتحال کی کچھ نہ کچھ تو وجوہات ہوں گی؟
یہ سرزمین ہم نے آخر کس لیے طویل قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی، پاکستانی بن کر رہنے کے لیے یا سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کے لیے۔ یا پھر فقہی اور مسلکی بنیادوں میں بٹ کر بکھرنے کے لیے۔ یا پھر ایک دوسرے کو غدار غدار کہنے کے لیے۔ غداری سے یاد آیا یہ لفظ تو ہمارے ہاں اتنا عام ہوگیا ہے کہ اس کی اہمیت اور وحشت ہی کہیں گم ہوگئی ہے۔
ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ سرکار کی سطح پر بھی ہم 73سالہ تاریخ میں اسے کئی بار سن چکے ہیں، اور اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے بھی دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے بہت سے سیاستدانوں کو غدار قرار دیا، لیکن ان کی نا تو کوئی جاگیر تھی اور نہ ہی کہیں بڑا بینک بیلنس۔ جب کہ اس کے برعکس جو "محب وطن" ہونے کے سرٹیفکیٹ رکھتے تھے، اُن کی کھربوں کی جائیدادیں تھیں، اندرون بیرون ملک بینکوں کا بینک بیلنس ہی اُن کی اگلی سات نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔
قارئین بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آزادی کے دن یعنی خوشی کے دن بھی کیا رونے دھونے والی باتیں لے بیٹھا ہوں تو یقین مانیں اگر ہم ترقی نہ کرنے کی وجوہات نہ ڈھونڈیں تو ہم کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکیں گے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ایک سیاستدان اقتدار میں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ایک آسان حل نکالتا ہے، کہ اُسے غدار قرار دے کر حکومتی پلیٹ فارم سے اس کے خلاف مہم چلائی جائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ تاریخ میں جتنے بھی اپوزیشن رہنماء بنے کم و بیش سب پر ہی غداری کا الزام لگا حالانکہ غداری کی آئینی تعریف کے مطابق "ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال سے آئینِ پاکستان کو منسوخ یا معطل کرتا ہے"۔ غداری میں تصادم بھی ممکن ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں غداری کی تعریف مختلف اور اپنے سیاق و سباق کے مطابق ہے لیکن کسی ملک کے قانون میں یہ نہیں لکھا ہوگا کہ آزادی اظہار رائے بھی ایک غداری ہے لیکن یہاں ہے!کیوں ہے؟ کیوں کہ یہاں جمہوری تربیت کی کمی ہے۔ تاریخ میں سبھی سیاستدانوں (خاص طور پر اپوزیشن ) پر غداری کے الزامات لگے۔ اور بہت سے سیاسی قائدین مرتے دم تک اس فتوے، الزام اور لیبل کے ساتھ جی رہے تھے اور مرنے کے بعد عوام کی ایک بڑی تعداد کو احساس ہو ہی جاتا ہے کہ وہ "غدار" جو کہہ رہے تھے وہی دراصل حقیقت تھی۔
تاریخ کا ایک موڑ آیا جب پیپلزپارٹی اور نلیگ اقتدار میں آئی تو ایک بار پھر غدار غدار کے کیچڑ اُچھالے گئے، اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے شریف النفس سیاستدانوں نے سیاست ہی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم سب نے غداری کا انجام بھی دیکھا کہ کس طرح پاکستان کی اکثریت ہم سے علیحدہ ہوئی۔
1971ء میں ہماری غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا حالانکہ اس کی آبادی ان چاروں صوبوں سے زیادہ تھی۔ باقی ماندہ پاکستان میں بھی آج آپ کو پاکستانی قومیت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ الغرض ابن انشاء کی کتاب میں ایک خاکہ پاکستانیت کے حوالے سے بھی ہے۔ اتفاق سے میرے پاس اس وقت کتاب کا حوالہ موجود نہیں تاہم انھوں نے لکھا تھا کہ برطانیہ میں انگریز قوم رہتی ہے، فرانس میں فرانسیسی قوم، جرمنی میں جرمن قوم، ایران میں ایرانی لوگ، افغانستان افغانوں کا ہے لیکن پاکستان میں پاکستانی کہاں ہیں؟
لہٰذاآج آزادی کے موقع پر یہ ضرور سوچیے گا کہ ہم کیوں ایک قوم نہیں بن سکے، ہمارے اندر برداشت کاحوصلہ کیوں نہیں رہا، ہم کیوں اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر سکتے، بلکہ اُسے غداری کے زمرے میں لے جاتے ہیں، اور غداری کا لفظ تو اتنا آسان ہے کہ دوسرے کے لیے بغیر ثبوت کے اُسے غدار قرار دے دیا جاتا ہے، یہ ایک غلط ٹرینڈ ہے، کہ اپوزیشن رہنماؤں کو آپ غدار بنا دیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے شیخ مجیب الرحمن کی پراڈکٹ یعنی بنگلہ دیش سے پیار کیا لیکن شیخ مجیب کو ہم غدار کہتے ہیں، اگر ولی خان کو ہم نے غدار کہا تو اُن کے بیٹے اسفند یارولی کو ہم نے کے پی کے میں پانچ سال حکومت دی۔
پھر اگر کوئی کہتا ہے کہ پنجاب کے تین حصے کر دیے جائیں وہ بھی غدار ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ کراچی ایک الگ صوبہ ہوناچاہیے وہ بھی غدار ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ کے پی کے سے ہزارہ کو الگ کر دیا جائے وہ بھی غدار کہلاتا ہے، ایسا لگتا ہے، کہ پاکستان غداروں کی منڈی بن کر رہ گیا ہے، یعنی یہاں کوئی بھی اپنا پوائنٹ آف ویو بتاتا ہے، اگر اُس کا پوائنٹ آف ویو آپ کے خیال سے مطابقت نہیں رکھتا، تو وہ فوری غداروں کی لسٹ میں آجاتا ہے۔ حتیٰ کہ نواب اکبر بگٹی کو غدار قرار دے کر مار دیا گیا، جسے آج بھی غلط کہا جاتا ہے، اور اس کے اثرات آج بھی وہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ الغرض ہمارا جب دل کرتا ہے، ہم کسی بھی سیاستدان، صحافی، شاعر یا دانشور کو غدار بنادیتے ہیں۔
حالانکہ اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے علیحدہ ہونے کا کئی بار اعلان کیا ہے، وہاں اس حوالے سے کئی بار ریفرنڈم بھی ہوئے اور اس معاملے میں جو لوگ الگ نہیں ہونا چاہتے تو کیا وہ اسکاٹ لینڈ کے لیے غدار ہیں؟ بالکل نہیں وہاں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، پھر بری ایگزٹ کے حوالے سے یورپی یونین سے برطانیہ کا نکلنا کیا جن برطانوی شہریوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے لیے ووٹ ڈالا وہ سب غدار تھے؟ پھر اسپین سے کاتالونیانے الگ ہونے کے لیے ریفرنڈم کروایا اور الگ ہوگیا، تو کیا جن لوگوں نے اسپین کے ساتھ رہنے کی خواہش کی وہ سب غدار تھے، نہیں! ان ملکوں نے اپنے ان شہریوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جیسا دوسرے شہریوں کے ساتھ کیا۔
میری نظر میں سب سے بڑی غداری کا فتویٰ بے روزگاری پر لگایا جائے، اس کے بعد تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان اس لیبل کا زیادہ مستحق ہے۔ غدار غدار کا کھیل اس ملک میں بہت کھیلا جا چکا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اصل مسائل کی جانب توجہ دیتے ہوئے اس قوم پر رحم کیا جائے ہمیں برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، تب ہم ایک قوم بن سکتے ہیں!