یوم سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن 1971 سے لے کر آج تک ہم نے اس سانحے سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں "جمہوریت " کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے۔ خیر یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا "بڑا ہاتھ" تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے، دشمن کا تو کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟ آپ کیسے اپنے آپ کو بچائیں گے؟ ویسے بھی متحدہ پاکستان کی تقسیم کے لیے سازگار حالات تو ہمارے حکمرانوں نے پیدا کیے۔
ہم کسی اور پر یہ الزام کیوں عائد کریں۔ ہمارے حکمراں خود دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت علیحدہ وطن کے لیے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے چھٹکار پانے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، ان میں احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی ہورہی ہے اور ان کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔
حد تو یہ تھی کہ ایک جانب یہ اندوہناک سانحہ ہو چکا تھا اور دوسری جانب گزشتہ روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نیویارک سے پاکستان پہنچے۔ 20 دسمبر 1971کو آغا محمد یحییٰ خان اقتدار بھٹو کو منتقل کر کے ایک طرف ہو گئے۔ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سنیارٹی لسٹ میں اپنا نمبر اور نام چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ" سبق "جو ہمارے حکمرانوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا۔
قارئین!قوم وہ ہوتی ہے جو ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آیندہ سدھارنے کی کوشش کرے، جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی، کم ازکم ان غلطیوں کو تسلیم ہی کر لیں۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین برطرف کیا گیا پھر حسین شہید سہروردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور بنگالی بھی تھے، کو "غدار" کے خطاب سے بھی نوازا، اور وہ 1962 میں قتل ہو گئے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب "شہاب نامہ" میں لکھتے ہیں "قیام پاکستان کے بعد مجھے انڈر سیکریٹری کے طور پر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ سیکشن کا انچارج بنایا گیا۔
کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کے لیے نئی عمارتیں زیر تعمیر تھیں، اُن کے لیے سینٹری کا سامان درآمد کرنا تھا اس کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس میں چار وزیر اور کچھ افسر تھے مولوی فضل الرحمان بھی تھے، وہ وزیر داخلہ تھے۔ جب سینٹری کے سامان کا کوٹہ طے ہو گیا تو ایک وزیر نے دبے الفاظ میں تجویز پیش کی کہ اگر امپورٹ کا کچھ حصہ ڈھاکا کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ اس تجویز پر بڑی ہنسی اُڑی، کسی نے کہا ڈھاکا میں سامان بھیجنے کی کوئی تُک نہیں، کسی نے کہا سامان اسمگل ہو کر کولکتہ پہنچ جائے گا۔ مولوی فضل الرحمان مسکرائے نہ بگڑے بلکہ زور دے کر کہا کہ علامتی طور پر کچھ حصہ ضرور بھیج دیں، یوں بات مان لی گئی میرے خیال میں لاشعوری طور پر بنگلہ دیش کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اُسی روز سے شروع ہو گیا تھا۔
پھر آپ ریکارڈ چیک کر لیں، ہمیں آج تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ بیس برسوں میں مجموعی طور پر مغربی پاکستان پر 11334 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو بیس سالہ کل اخراجات کا 71.16 % تھے اور اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل 3593 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 28.84 % ہوتا ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس کی رسیدیں فی الوقت موجود نہیں ہیں۔
حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان "کماؤ پوت" تھا کیوں کہ 1960 کی دہائی اور اُس کے بعد بھی وہ متحدہ پاکستان کی کل برآمدات کا 70 فیصد برآمد کرتا جب کہ مغربی پاکستان کا ملکی معاشی ترقی میں 30 فیصد حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ایوب دور (1969-1958) میں بھی جاری رہا بلکہ اسے یوں بھی کہا جائے کہ ایوب دور میں بنگالیوں میں سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا تو غلط نہ ہو گا، صدرایوب خان کی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا، یوں اُن کی حکومت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بیج کو مزید پانی دیا اور کھاد فراہم کی۔