پاکستان کی ساری توجہ اقوام متحدہ کے جاری اجلاس میں کشمیر پر ہے۔ امریکہ کی ساری توجہ ایران اور برطانیہ کی ساری توجہ اپنے ملک کی سپریم کورٹ پر ہے جس نے وزیراعظم کی جانب سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا ہے لیکن شاید اکثریت کے لیے سب سے اہم موضوع نہ کشمیر تھا، نہ ایران اور نہ ہی کوئی اور سیاسی مسئلہ۔ اس اجلاس کا سب سے اہم موضوع کلائمیٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی تھا۔
ماحولیاتی تبدیلی دراصل دنیا کے ماحول اور موسم میں انسانی عمل کی وجہ سے رونما ہونے والی تبدیلی کو کہا جاتا ہے، یہ انسانی عمل گاڑیاں چلانے، جہاز اڑانے، صنعت لگانے، مشینیں بنانے، کاشتکاری کرنے سے لے کر ہر وہ عمل ہو سکتا ہے جس میں انسان ماحول میں کوئی تبدیلی لاتا ہے۔ پہلے کلائمیٹ چینج کو گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا تھا لیکن بہت سے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے سبب اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور جب بھی کہیں ذرا زیادہ سردی پڑ جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ کونسی گلوبل وارمنگ ہے۔ اس لئے کلائمیٹ چینج کا لفظ متعارف کرایا گیا کیونکہ دنیا کے درجہ حرارت میں تبدیلی سے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں۔
مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ اگر دنیا میں درجہ حرارت صرف چند ڈگری بھی بڑھ جائے تو ہمارے طرزِ زندگی پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ہمیں کچھ حد تک اس کے اثرات نظر بھی آ رہے ہیں۔ سیلاب، شدید بارشیں، قحط، پانی کی قلت، ہیٹ ویو اور سموگ وغیرہ سب کلائمیٹ چینج کا ہی نتیجہ ہیں۔ انسان نے دنیا کے وسائل کو اپنے لیے استعمال کیا لیکن دنیا ایک بہت نازک سے توازن پر قائم ہے اور اب انسان کے عمل سے یہ توازن ختم ہوتا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر روز ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر درخت گرائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پانی جو زمین پر برف کے روپ میں محفوظ ہے، پگھلنے کی وجہ سے تیزی سے سمندر کا حصہ بن رہا ہے۔ اس سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے اور سائنسدان اس حوالے سے خبردار کر چکے ہیں کہ بہت سے ساحلی شہر ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں اور جو سیلاب صدیوں میں ایک دفعہ آتے تھے، اب ان کے ہر سال آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان کے لیے اس مسئلے میں بھی دو مسئلے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم دنیا کے اُن ممالک میں سے ہیں جن پر کلائمیٹ چینج سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم دنیا کے ان ممالک میں سے بھی ہیں جن کا بحیثیت قوم ماحولیاتی تبدیلی میں اتنا بڑا کردار نہیں ہے۔ یعنی ہم متاثر بھی سب سے زیادہ ہو رہے ہیں اور ہم اس کو ختم یا کم کرنے کے لیے بھی سب سے کم کام کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کریں تو کیا کریں؟
ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کو درخت لگانے اور پلاسٹک کے شاپنگ بیگز ختم کرکے کاغذ اور کپڑے کے تھیلوں کے متعارف کرانے تک محدود کر دیا ہے۔ اگرچہ درخت لگانا بہت ضروری ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے تھے کہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں ہو سکتا اور اب انہی کی حکومت یہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اگر میں ایک ایسے ملک کا سربراہ ہوں جس نے کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہونا ہے تو میں اپنے ملک کو آنے والے دنوں کے لئے تیار کروں گا۔ اس تیاری میں کیا کیا شامل ہے؟ ایک تو جو ہم کر رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ماحولیاتی تبدیلی کا کم سے کم ذمہ دار بنائیں۔ ہم درخت لگائیں اور ہر وہ اقدام کریں جس سے ہم اپنے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن چونکہ ہم باقی ممالک کو نہیں روک سکتے تو ہم اپنے آپ کو کیسے بچائیں؟ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں غذا اور پانی کی سیکورٹی پہ کام کرنا ہے۔ قدرتی آفتوں کی وجہ سے اگر ہمیں قحط يا پانی کی قلت کا خدشہ ہو تو ہمارے ذخائر اتنے ہونا چاہئیں کہ ہم اپنے لوگوں کو بھوک و پیاس کے سبب مرنے سے بچا سکیں۔ ہمارا انفراسٹرکچراتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ ہم لوگوں کو آنے والے سیلابوں سے بچا سکیں، اس کے لیے ڈیم، بند بنانا اور دیگر انفراسٹرکچر کھڑا کرنا ہماری اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ پھر ہمارے جو سمندری علاقے ہیں، ان کو محفوظ بنانا اور انہیں بڑھتے ہوئے سمندری پانی سے بچانے کی پلاننگ بھی بہت ضروری ہے۔ ہم لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچانے کے لیے اپنے شہروں کے اندر زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اور پانی کے صحیح استعمال سے مائیکرو کلائمیٹ بنا سکتے ہیں کہ وہاں پر لوگوں کو دقت کم سے کم ہو۔ کلائمیٹ چینج کی سب سے بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو گاڑیوں اور صنعتوں وغیرہ سے خارج ہوتی ہے۔ ہم اپنی صنعتیں اور اسٹینڈرڈز کو ایسا بنانا چاہئے کہ ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ بجلی بنانے کے لیے ہمیں صاف توانائی کی طرف جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک ذمہ داری کا احساس دلانا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کام آسان نہیں لیکن ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں میرے ایک پروفیسر کہا کرتے تھے کہ کلائمیٹ چینج صحافت کی تاریخ کی سب سے بڑی اسٹوری ہے کیونکہ اب کوئی ایسا عمل نہیں رہا جس نے دنیا کے تمام لوگوں کو ایک ساتھ اس طرح متاثر کیا ہو۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے اوپر ہے کہ یہ اسٹوری خوفناک نہ بن جائے۔