Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. 2022, Kaise Guzra. Zindagi, Safar, Mutalea

2022, Kaise Guzra. Zindagi, Safar, Mutalea

یہ سال کچھ ایسی تیز رفتاری کے ساتھ گزرا کہ حیرت ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی جنوری دو ہزار بائیس تھا اوریہ کالم پڑھتے وقت سال کا صرف ایک دن باقی ہوگا۔ اتوار کو ان شااللہ ہم سب نئے سال کا سورج دیکھیں گے۔

رواں سال ایک طرح سے پوسٹ کورونا تھا۔ موزی مرض کی تباہ کاری کے بعد کا سال۔ ویکسینیشن شدہ عوام کا خوف اور دہشت کی فضا سے باہر آکر چین اور سکھ کے ساتھ پہلے جیسی زندگی بسر کرنے کی کوشش۔ ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ جنہیں کورونا کا مرض لاحق ہوا، ان کی زندگیاں پہلے جیسی نہیں رہی، کچھ نہ کچھ جسمانی اور ذہنی نقصان اس موزی نے ضرور پہنچایا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری یاداشت پر کچھ نہ کچھ اثر پڑا ہے۔ پہلے جس طرح چیزیں جذئیات کے ساتھ یاد رہتی تھیں، اعداد وشمار ازبر ہوجاتے، اب ویسا نہیں۔ شائد اس کی وجہ سوشل میڈیا پر مسلسل کچھ نہ کچھ وقت گزارنا بھی ہے کہ یہ شارٹ ٹرم میموری کا باعث ہے۔

ہمارے ہاں کورونا کے بعد سیلاب کی آفت ٹوٹ پڑی اور بہت زیادہ نقصان ہوا، خاص کر سندھ میں تو ایسی خوفناک تباہی آئی کہ ابھی تک معاملات سدھر نہیں سکے، پنجاب کے دو اضلاع مظفر گڑھ خاص کر تونسہ اور ڈی جی خان میں خاصا نقصان ہوا۔ سیلاب کے بعد ڈینگی، ملیریا اور دیگر مسائل بھی حملہ آور ہوئے۔ ہمارے گھر بھی دو تین مریض بنے۔

بڑے بیٹے کو ڈینگی اور ٹائفائیڈ کا مکس سا اٹیک ہوا، کئی دن بڑی پریشانی رہی۔ اچانک رات کو ٹمپریچر 104تک چلا جائے، ایمرجنسی میں ہسپتال لے کر بھاگنا پڑتا۔ دو دن ہسپتال میں ایڈمٹ بھی رہا۔ اللہ کے کرم سے یہ پریشانی دور ہوئی۔ معروف تجزیہ کار اور دانشور برادرم ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے طبی مشوروں سے بڑی مدد ملی۔ میں اپنے تمام ذاتی معاملات اور طبی ایشوز پر انہی کی رائے کو اہم گردانتا ہوں۔ ڈاکٹر عاصم سمجھدار اور زیرک آدمی ہیں، اپنے تجزیوں ہی میں نہیں بلکہ اپنے طبی تشخیص اور مشوروں میں بھی۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ان میں مومنانہ فراست موجود ہے، اللہ انہیں جزائے خیر دے، آمین۔ بہت سوں کے لئے وہ تشفی اور طمانیت کا باعث ہیں۔

پچھلے چند برسوں سے میری شوگر (ذیابیطس)اور ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ زندگی بسر ہو رہی ہے۔ اس سال الحمداللہ معاملات بہتر رہے، ابھی دو تین ہفتے پچھلے تین ماہ کی شوگر کا ٹیسٹ HBA1Cکرایا تو اللہ کے فضل سے 5۔ 9 ریڈنگ آئی جو پری ڈایابیٹک(شوگر سے پہلے) تصور ہوتی ہے۔ اسی طرح کولیسٹرول وغیرہ کے ٹیسٹ بھی بہت اچھے نتائج آئے۔ یہ سب کچھ میرے سدا کے چٹور پن اور چٹخاروں کے آگے برائے نام مدافعت کے باوجود ہے۔ اس کی وجہ نہایت پابندی سے ادویات لینا اورایک آدھ دن بدپرہیزی کے بعد عمومی کنٹرول، غذا میں صحت مند چیزوں خاص کر فائبر کی شمولیت اور گھر میں ذہنی سکون ملنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر لائف پارٹنرز میں ذہنی مطابقت ہوں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوں تو یہ رب کی بہترین نعمتوں اور برکات میں سے ایک ہے۔

رواں سال چند ہفتے قبل میرے بڑے بھائی کی انجیوپلاسٹی ہوئی۔ انہیں تین چار سال قبل انجیوگرافی کے بعد سٹنٹ ڈالنے تجویز کئے گئے، مگر بھائی صاحب نے کمال مہارت سے راہ فرار اختیار کی۔ وہ اس دوران ادویات لیتے رہے، ساتھ مختلف ٹوٹکے وغیرہ بھی۔ ایک جناتی قسم کا قہوہ انہوں نے خود ایجاد فرمایا ہے، جس میں کلونجی، دار چینی، سونف، ادرک، پودینہ، لیموں، گرین ٹی وغیرہ سے لے کر زعفران تک نجانے کتنی چیزیں اس میں ڈالی جاتی ہیں۔ یہ قہوہ پیتے ہوئے وہ فاخرانہ نظروں سے گھر والوں کو دیکھتے اور انہیں اس کے بے پناہ فوائد پر لیکچر دیا کرتے۔ افسوس کہ یہ کم بخت دنیاوی معاملات ان ٹوٹکوں سے حل ہوتے نہیں۔ خیر نومبر میں ان کی انجیوپلاسٹی ہوئی، دو سٹنٹ پڑے۔

الحمداللہ اب وہ ٹھیک ہیں۔ جب ان کی انجیوپلاسٹی ہو رہی تھی تو ڈاکٹرز نے کہا کہ رائٹ سائیڈ سے بلاکیج زیادہ ہے، ہم کھولنے کی کوشش کرتے ہیں اگر نہ ہوا تو پھر بائی پاس ہی آپشن ہے۔ یہ بات سن کر ایک لمحے کے لئے آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا، اگرچہ اب بائی پاس خاصا محفوظ ہوچکا ہے، مگر بہرحال یہ بڑی سرجری ہی ہے۔ اگلا نصف گھنٹہ جتنی دعائیں یاد تھیں، کتب میں جس قدر کلمات اسم اعظم سے متعلق مذکور ہیں، سب پڑھ ڈالے، بچوں کو دعائوں پر لگا دیا۔ اللہ نے کرم کیا، بلاکیج کھل گئی اور اچھے طریقے سے سب نمٹ گیا، الحمداللہ۔

پچھلے سال ایک دو نجی معاملات میں الجھن اور پریشانی تھی، اس سال کے اختتام پرپیچھے مڑ کر جائزہ لیا تو یہی پتہ چلا کہ رب کریم نے وہ سب اپنے فضل سے دھو ڈالیں۔ رب ہمیشہ آسانیاں اور بہتری فرماتا ہے، بس ہم بے صبرے انسانوں کا ظرف چھلک جاتا ہے، ہم مشکلات یاد رکھتے اور چیخ پکار(سرائیکی میں دھاڑ ووئے) کرتے ہیں جبکہ زیادہ عرصہ رہنے والی آسانی اور آسودگی شمار ہی نہیں کرتے۔

اہل علم یعنی اللہ کے نیک بندوں سے صحبت کا البتہ یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔ لاہور کے ممتاز روحانی سکالراور صاحب عرفان بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب میرے مرشد ہیں۔ شاہ صاحب تصوف پر آٹھ شاندار کتب (کہے فقیر سیریز)کے مصنف بھی ہیں، جبکہ ایک کتاب ان کے ساتھ ہونے والی چالیس نشستوں پر سید قاسم علی شاہ نے شائع کی ہے۔ اس سال بھی شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے چند ایک مواقع ملے۔ شاہ صاحب کے ساتھ گزرے لمحات کی خاص بات دیکھی کہ جتنی بھی پریشانی یا مسئلہ درپیش ہو، وہ وہاں بیٹھے محسوس ہی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بہت بار یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ان سے کس معاملے میں دعا کے لئے کہا جائے۔ جس پریشانی سے گھبرا کر ان سے ملاقات کا وقت لیا تھا، وہاں بیٹھے وہ اتنی معمولی اور حقیر نظر آتی ہے کہ اس کی نشاندہی کرنا بھی اچھا نہیں لگتا۔

میں نے کبھی سرفراز شاہ صاحب کو مضمحل، رنجیدہ یا پریشان نہیں دیکھا۔ مسائل جتنے بھی ہوں، وہ ہمیشہ آسودہ، مطمئن اور پرسکون ملتے ہیں۔ ان کے طبی مسائل خاصے ہیں، دل کا ستر فیصد سے زیادہ حصہ کام نہیں کرتا، ان کا شیڈول بہت ٹف ہے، ملاقاتیوں کا بے پناہ دبائو ہوتا ہے۔ اس کے باوجود شاہ صاحب ہمیشہ ریلیکس، خوش دلی سے پریشان حال لوگوں کو ملتے ہیں، اللہ ان کی زندگی اور صحت میں برکت عطا فرمائے، آمین۔

کورونا کے مسائل کے پیش نظر پچھلے دو برسوں میں کہیں نہیں جا سکے۔ اس سال دو بیرون ملک سفر ہوئے۔ پانچ دن کے لئے دوبئی اور شارجہ جانا پڑا۔ چودہ اگست وہیں دوبئی میں گزرا۔ دفتر کے ساتھی ا شرف شریف کے ساتھ جانا ہوا، وہاں بھائیوں جیسے دوست سرمد خان کے ساتھ خوبصورت وقت گزرا، دوبئی میں کئی فیس بک فرینڈز سے بھی ملاقاتیں ہوئی، خوبصورت یادیں ذہن کے نہاں خانہ میں محفوظ ہیں۔

رواں سال ستمبر میں کابل جانا ہوا۔ یہ بھی پانچ چھ دن کا سفر تھا۔ لاہور اور اسلام آباد سے کئی اخبارنویس وفد کا حصہ تھے۔ بہت اچھا سفر رہا، کابل میں کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں، امارات اسلامیہ کے بعض رہنمائوں سے ملنے، ان سے گھنٹوں گفتگو کرنے کا موقعہ ملا، بہت کچھ سمجھنے، سیکھنے کو ملا۔ کابل میں گھومتے رہے، کئی چیزیں واضح ہوئیں، بعض سوالات کے جواب ملے۔ پاکستانی سفارت خانہ میں ایک شام گزری، ایک نجی یونیورسٹی میں پروگرام تھا، کابل کے معروف چینلزاور اخبارات کا وزٹ بھی کیا، گلبدین حکمت یار سے بھرپور ملاقات رہی۔ واپسی طورخم کے ذریعے ہوئی، ایک ناقابل فراموش تلخ تجربہ۔ یہ سب تفصیل سے سات آٹھ کالموں کی سیریز میں لکھ چکا ہوں۔

لکھنے پڑھنے کے حوالے سے بھی سال اچھا گزرا۔ سال کے اینڈ میں اپنی دو کتابوں کو تقریباً فائنل کر لیا ہے۔ امید ہے کہ جنوری کے پہلے عشرے میں پبلشر کو مسودہ بھیج دوں گا۔ ایک کتاب میرے انٹرویوز کا مجموعہ ہے، بہت سے نامور لوگ ہیں، زیادہ تر علم وادب سے۔ عبداللہ حسین، تارڑ صاحب، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر انیس ناگی، ڈاکٹر عائشہ جلال، سید قاسم محمود، امجدا سلام امجد، شہزاد احمد، شفقت تنویر مرزا، جاوید احمد غامدی، عبدالقادر حسن، حمید اختر وغیر ہ اور خاص کر قبلہ سرفراز شاہ صاحب کا انٹرویو بھی اس میں شامل ہے۔ دوسری کتاب منتخب تحریریں ہیں، مگرپچھلی دونوں کتابوں سے ہٹ کر اس میں عسکریت پسندی پر اپنی بعض تحریریں بھی شامل کی ہیں، سفرنامے اور فلموں پر لکھی سیریز بھی۔ اللہ نے چاہا تو اگلے سال یکم مارچ کو لاہور میں ہونے والے کتاب میلہ سے پہلے دونوں کتاب مارکیٹ میں آ جائیں گی۔

رواں سال کے ابتدائی چند ماہ میں کتابیں زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ آخری سہہ ماہی میں اس پر فوکس کیا اور کئی اچھی، عمدہ کتابیں چاٹ ڈالیں۔ عرصے بعد ایک طویل نشست میں کتاب پڑھنے کا پرانا تجربہ دہرایا۔ آپ رات بھر جاگ کر کتاب پڑھیں اور صبح ہلکے ناشتے کے بعد سوئیں تو عجب قسم کی سرشاری کئی دنوں تک چلتی ہے۔ کالج یونیورسٹی کے زمانے میں ایسا بہت بار کیا۔ اب اتنا وقت نہیں نکل پاتا، اس سال نومبر دسمبر کی خنک راتوں میں ایسا کر ڈالا، لطف آیا۔ بعض انگریزی کتابوں کی پی ڈی ایف بھی پڑھیں، ایسی کتب جو یہاں دستیاب نہیں تھیں۔

اس سال بہت سی شاندار کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا، بعض کا تذکرہ کالموں میں ہوا، کچھ کا نہیں کر سکا۔ ان شااللہ اگلی نشست میں ان تمام فکشن، نان فکشن کتابوں پر بات کرتے ہیں۔ سال کا اختتام اگر کتابوں کی دل کش صحبت میں کیا جائے تو اس سے اچھا اور کیا ہوگا؟