افغان طالبان اور پاکستانی ریاست کی افغان پالیسی کے حوالے سے گزشتہ کالم کو اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا تو بعض دوستوں نے سوالات اٹھائے۔ افغان ایشو اب خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے، اس کے کئی پہلوا ور پرتیں ہیں۔ اس سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ ایک اہم ترین سوال جو سامنے آیا ہے اس پر بات کرتے ہیں۔
پاکستان افغان طالبان کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟ یہ بڑا بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد کئی غلطیاں کیں۔ ان کا فہم دین اور تعبیر دین دونوں سخت گیر روایتی سوچ پر مبنی تھی۔ نہایت غیر دانشمندانہ انداز میں انہوں نے افغانستان میں "اسلامی نظام "نافذ کرنے کی کوشش کی۔ بچیوں کے سکول بند کر دئیے، خواتیں پرپردے کے حوالے سے سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ مردوں کے لئے بالشت بھر ڈاڑھی لازمی کر دی، سخت گیر مذہبی کارندے سڑک، بازار، گلی محلے میں کسی کلین شیو کو دیکھتے تو پکڑ کر لے جاتے، جب تک اس کی مٹھی بھر ڈاڑھی نہ آجائے، اسے رہا نہ کیا جاتا۔ متشددانہ رویہ اس حد تک تھا کہ نیکر پہن کر فٹ بال کھیلتے لڑکوں کو بھی سزا کے طور پر گنجا کر دیا جاتا۔ ایک پورا لائف کوڈ انہوں نے افغانستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی، جو سخت گیرمسلکی فکر اورروایتی پشتون ولی کا مکسچر تھا۔ اس کی انتہا تب ہوئی جب افغان طالبان نے افغان علاقہ بامیان میں کئی صدیوں سے قائم تاریخی مجسمے مسمار کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان سمیت طالبان کے ہر ہمدرد نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر طالبان قیادت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بے لچک تھی، انہوں نے مجسمے تباہ کر دئیے اوردنیا بھر سے ملامت سمیٹی۔ انہوں نے شمالی اتحاد کو بھی اکاموڈیٹ کرنے کی کماحقہ کوشش نہیں کی۔ طالبان کی سب سے بڑی غلطی دنیا بھر کی جہادی تنظیموں اور گروہوں کو جگہ دینا اور پھر انہیں کھلی چھوٹ دے دینا تھا۔ القاعدہ کو انہوں نے محفوظ پناہ گاہ فراہم کی اور اس کے سنگین مضمرات کا قطعی اندازہ نہیں لگایا۔
افغان طالبان نے کچھ اچھے کام بھی کئے۔ سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ افغانستان جیسے ملک میں جہاں مسلح گروہ، جتھے عام ہوچکے تھے، ان سب کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ افغانستان جیسے ملک کو اسلحے سے پاک کردینا کسی کرشمے سے کم نہیں تھا، جس کا کریڈٹ بہرحال طالبان قائد ملا عمر کو جاتا ہے۔ افغانستان کئی سالوں سے شدید خانہ جنگی کا شکار تھا۔ حالت یہ تھی کہ کابل کے مختلف حصوں پر مختلف کمانڈر قابض تھے۔ تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود اور پختون گلبدین حکمت یار کے جنگجو ایک دوسرے پر راکٹ، گولیاں برساتے رہتے۔ باقی صوبوں میں وارلارڈز قابض تھے۔ افغانستان نے سوویت یونین کی واپسی یعنی 1988 کے بعد مکمل سکون تب دیکھا جب وہاں 1997ء میں طالبان حکومت مستحکم ہوگئی، تب نوے پچانوے فیصد افغانستان میں مثالی قسم کا امن وامان قائم ہوگیا تھا۔ افغان طالبان کا تیسرا بڑا کارنامہ افغانستان سے پوست کی کاشت صفر کر دینا تھا۔۔ ملا عمر نے بیک جنبش زبان افغانستان میں ہر قسم کی منشیات کاشت کرنے پر پابندی لگا دی اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرا دیا، خود امریکی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ پوست کی کاشت صفر ہوگئی۔
افغان طالبان کا چوتھا بڑا کام پاکستان کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے۔ افغانستان ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف سازشوں اور پراکسی وارز کا مرکز رہاتھا۔ یہ واحد ملک ہے جس نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو اقوام متحدہ کا ممبر بنانے کے خلاف ووٹ دیا۔ افغانستان کی پاکستان مخالفت بلاوجہ اور غیر منطقی تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس وقت کے افغان حکمران ظاہر شاہ نے اپنے آرمی چیف کو بلا کر کہا کہ کیا ہم پاکستان پر حملہ کر سکتے ہیں؟ افغانستان کے پہلے کچھ فوجی قوت ہی نہیں تھی، اس لئے ایسا نہ ہوسکا۔ ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے والے سردار دائود نے بھی یہی پاکستان مخالف پالیسی اپنائی۔ دائود نے ہمارے پختون قوم پرست لیڈر اجمل خٹک کو افغانستان پناہ دی، انہیں سپورٹ فراہم کی اور گریٹر پختونستان کا نعرہ لگوایا۔ ایک طرف اجمل خٹک جبکہ دوسری طرف بھٹو دور میں فوجی آپریشن کے باعث پہاڑوں پر چڑھ جانے والے بلوچ جنگجوئوں کی بھرپور سرپرستی کی گئی، مری قبیلے کے سربراہ نواب خیر بخش مری کئی برسوں تک افغانستان میں افغان حکومت کے مہمان رہے۔ داود کا تختہ الٹنے والے ترکئی اور پھر حفیظ اللہ امین کے رویوں میں مزید شدت آئی، ببرک کارمل کے دور میں تو روسی فوجیں افغانستان داخل ہو کر قابض ہو گئیں اور افغان تحریک مزاحمت یا افغان جہاد شروع ہوگیا، جس میں پاکستان کا مرکزی کھلاڑی بن گیا۔ کارمل کے بعد جنرل نجیب آیا اور پھر اس کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اسکا خاتمہ افغان طالبان نے کیا۔ افغانستان کی پوری تاریخ میں پاکستان کے ساتھ سب سے خوشگوار تعلقات طالبان حکومت نے قائم کئے۔ ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں پہلی بار پاکستانی ریاست نے سکون کا سانس لیا۔
ایک اہم نکتہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ افغان طالبان پاکستان کی پراکسی ہرگز نہیں تھے، اپنے اندرونی معاملات میں انہوں نے کبھی پاکستانی مداخلت کو ایک حد سے زیادہ قبول نہیں کیا۔ ملا عمر اپنے قریبی ساتھیوں اور علما کی مشاورت سے حکومت چلاتے رہے اور بہت بار کسی معاملے میں پاکستان کے دبائو کو مسترد کیا۔ اس کے باوجود افغان طالبان حکومت پاکستان کی دوست، مخلص اور خیر خواہ حکومت تھی۔ اس سے پہلے کے پچاس برسوں کا بیشتر حصہ افغان حکومت بھارتی پراکسی بن کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ اس تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان حکومت کی کیوں حمایت کی تھی اور پاکستانی ریاست کے نزدیک افغان طالبان کس لئے اتنے اہم رہے ہیں؟
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نیٹو دستوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر قابض ہوگئے، طالبان حکومت ختم ہوگئی، ان کے چندکمانڈر ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ کمانڈر اور جنگجو انڈرگرائونڈ جبکہ باقی عوام میں تحلیل ہوگئے۔ امریکیوں نے حامد کرزئی کی صورت میں ایک پشتون کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا جبکہ عملی طور پر حکومت پر شمالی اتحاد کے تاجک، ازبک، ہزارہ گروہ قابض ہوگئے۔ اگلے چند سالوں میں افغانستان ایک بار پھر بھارتی پراکسی اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکز بن کر سامنے آیا۔ امریکیوں نے اپنے سٹریٹجک مفادات کے تحت بھارت کو افغانستان میں بہت زیادہ جگہ دی۔ مثال کے طور پرسی آئی اے کے ہوتے ہوئے افغان انٹیلی جنس کے لئے بھارتی ایجنسی را کے افسر بطور ٹرینربلوانے کی کیا تک تھی؟ کیا سی آئی اے افغان انٹیلی جنس کو تربیت نہیں دے سکتی تھی؟ بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، ہزاروں افغان طلبہ کو بھارت سکالرشپ دے کر بلوایا، افغان میڈیا میں بے پناہ انویسٹمنٹ کی اور کئی ٹی وی چینل، ایف ایم ریڈیوبھارتی پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے رہے۔ امریکی حکومت نے اگلا ہدف عراق بنا لیا، مگر یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکی افواج افغانستان پر قابض ہوگئی ہیں، ان کا اب نکلنے یا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ بدقسمتی ہی کہیں گے کہ ازبک، تاجک، ہزارہ گروپوں نے امریکی قبضے کو خوشدلی سے قبول کیا اور ڈالروں کی ریل پیل میں بڑھ چڑھ کر لوٹ مار کرنے لگے، کرزئی کے ساتھ تعاون کرنے والے پشتون کمانڈر اور وارلارڈ بھی یہی کر رہے تھے۔ افغانوں کی روایتی غیرت، حب الوطنی اور دلیری کا نام تک نہ رہتا، اگر امریکی سامراج کے خلاف افغان طالبان گوریلا جنگ شروع نہ کرتے۔ درحقیقت یہ افغان طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے افغانوں کی عزت بچائی۔ آج اگر امریکی افغانستان سے جانا چاہ رہے ہیں تو اس کی وجہ افغان طالبان اور ان کی جانب سے دی گئی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ ہزاروں طالبان جنگجو اور ملا داد اللہ جیسے بہت سے کمانڈروں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن کی آزادی کی یہ لڑائی جیتی۔
افغانستان کی صورتحال یہ تھی کہ طالبان کے سوا باقی افغان گروپ امریکی بالادستی قبول کرنے کے لئے دل وجاں سے تیار رتھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کسی نہ کسی ملک کا آلہ کار یا زیراثر بھی رہا۔ ہزارہ روایتی طور پر ایرانی اثر میں رہے ہیں، تاجک خاص کر پنج شیری تاجک بھارت سے زیادہ قریب ہیں، عبداللہ عبداللہ، امر اللہ صالح وغیرہ ان کے نمائندہ لیڈر ہیں، بدخشانی تاجکوں پر بھی ایران کا اثر ہے، ازبک سنٹرل ایشیائی ریاستوں ازبکستان وغیرہ کے ذریعے روس کے قریب رہے، ازبک کمانڈر جنرل دوستم کے ترکی سے بھی قریبی مراسم ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کاافغان طالبان کی حمایت کرنا ہر اعتبار سے منطقی اور درست ہے۔ افغان طالبان کا ایک تو کاز جینوئن اور اخلاقی طور پر درست تھا، دوسرا ان کے پاکستان کے ساتھ ماضی میں گہرے تعلقات تھے، تیسرا جب نام نہاد پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کر رہا تھا، اس وقت افغان طالبان پاکستانی ریاست کے خلاف نہیں گئے، الگ تھلگ رہے۔ اس لئے افغان طالبان میں خواہ چند ایک خامیاں ہیں، کچھ مسائل مستقبل میں سر اٹھا سکتے ہیں، مگر پاکستان کے پاس طالبان کی حمایت کے سوا اور آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کی البتہ اس بار یہ شدید خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہو، افغان طالبان دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر کوئی قابل عمل حکومتی فارمولا بنا لیں۔
اس ایشو معاملے کے بعض اور پہلو ابھی باقی ہیں، اگر موقعہ ملا تو ان پر بھی بات ہوگی۔