چند دن پہلے کورونا سے متاثر ہونے کا شبہ ہوا۔ علامات کچھ زیادہ ظاہر نہیں ہوئیں، ہلکے پھلکے اشارے سے تھے، معمول کی خشک کھانسی، گلے میں چبھن وغیرہ۔ بس یہ ہوا کہ ایک ایسے عزیز سے ملاقات ہوئی، بعد میں معلوم ہواکہ کورونا کے مشتبہ مریض ہیں، کام کی جگہ پر بھی کچھ لوگ متاثر ہوئے، جس میڈیکل سٹور سے روٹین کی دوائیاں لیتا ہوں، وہاں کیسز نکلے۔ ماہرین مشورہ دے رہے ہیں کہ علامات ظاہر نہ ہوں تو ٹیسٹ نہ کرایا جائے۔ ٹیسٹ کا فیصلہ یوں کیا کہ اگر خدانخواستہ پازیٹو نکلے تو پھر زیادہ احتیاط کی جائے، گھر میں رہ جائیں۔ اہلیہ کی علامات بھی میرے جیسی تھیں، اس لئے دونوں کا ٹیسٹ کرایا۔ تیسرے دن آن لائن رزلٹ آ گیا۔ الحمدللہ نتیجہ نیگیٹو نکلا۔ ہماری علامات پہلے ہی سے نہ ہونے کے برابر تھیں، ٹیسٹ نیگیٹوآنے کی خوشی میں وہ بھی اڑنچھو ہوگئیں۔ اس لئے سردست تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اس منحوس وائرس سے ٹاکرا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ رب کریم سے امید ہے کہ وہ ہمارے حق میں بہترین فرمائے گا۔
آپ ممکن ہے یہ سوچ رہے ہوں کہ آج کل جب کورونا کی وبا کے مریض ایک لاکھ سے بڑھ چکے ہیں، خدشہ ہے کہ یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی، اموات بھی پونے تین ہزارتک ہوچکی ہیں، ایسے میں ایک نیگیٹو ٹیسٹ کی کیا اہمیت ہے؟ سوال جینوئن ہے۔ کورونا وبا کے ہنگام ایک صحافی اپنے نیگیٹو ٹیسٹ پر کالم لکھے تو عجیب بچکانہ سی حرکت لگے گی۔ جواب یہ ہے کہ بات نیگیٹو یا پازیٹو ٹیسٹ کی ہے ہی نہیں۔ میری روداد ٹیسٹ رزلٹ کے انتظار کے دنوں کی ہے۔
جس دن ٹیسٹ کرایا، اس سے ایک دو دن پہلے معروف اینکر، سینئر اخبارنویس نے کورونا کا شکار ہونے کے حوالے سے کالم لکھا۔ دل سے ان کے لئے دعا کی۔ ، دھیمے لہجے میں بولنے والے وہ صاحب ان دنوں سے پسند ہیں، جب ان کے مختلف شخصیات سے لئے تہلکہ خیز تفصیلی انٹرویوز میگزین میں چھپا کرتے۔ دو دن بعد ہم خود ٹیسٹ کی افتاد اور نتیجے کے انتظار کی کوفت سے دوچار ہوئے۔ اس وقت توپتا نہیں چلا، بعد میں تجزیہ کیا توہمارے انتظار کے وہ لمحے دو تین مرحلوں پر محیط تھے۔ پہلا مرحلہ ادراک کا تھا۔ جب آپ ٹیسٹ کے لئے سیمپل دے دیتے ہیں، پھرپہلا خیال یہی آتا ہے کہ پازیٹو آگیا تو کیا ہوگا؟ اپنے آپ سے پہلا سوال یہی پوچھا کہ کس طرح آئسولیشن میں رہیں گے اور بچوں کو کیسے دور رکھنا ہے؟ اہلیہ کے ساتھ مل کر پلان سوچا۔ ایک آسان حل یہ لگا کہ بچوں کو بھائی کے گھر بھیج دیں گے، پھر یہ سوچاکہ پہلے ان کے ٹیسٹ کرا لئے جائیں، کلیئر ہونے کے بعد ہی کہیں جائیں تاکہ وہاں جا کر نہ وائرس پھیلا دیں۔ ایک پریکٹیکل سوال یہ بھی ذہن میں آیا کہ دو ٹیسٹ کرانے کے دس ہزار لگ گئے، تین ٹیسٹ مزید کرانے پڑے تو پندرہ ہزار مزید نکل جائیں گے۔ ہمیں ہیلتھ انشورنس کی سہولت حاصل ہے، مگر یہ انشورنس کمپنیاں والے ازحد چالاک ہیں، ٹیسٹوں کے پیسے نہیں دیتے، صرف ہسپتال میں داخل رہنے کے اخراجات ادا کرتے ہیں۔ خیرجیسے تیسے کرکے آئسو لیشن پلان بنا لیا۔ وٹامن سی اور زنک کا سپلیمنٹ پہلے ہی سے لے رہا تھا، ایک ڈاکٹر دوست کے مشورے پر وٹامن ڈی کا سپلیمنٹ بھی لیا۔ مرچ مسالوں کی دکان سے سنا مکی، سونٹھ کا سفوف، گلاب کی خشک پتیاں، منقیٰ وغیرہ لیں، تھوڑا بہت ڈرائی فروٹ خریدا کہ یہ سب قوت مدافعت المشہور امیونٹی بڑھانے کے نسخے تھے۔ فیصلہ کیا کہ پازیٹو آنے کی صورت میں یخنی کے لئے بکرے یا گائے کا گوشت لیا جائے گا۔ دلیل یہ سوچی کہ چونکہ دیسی مرغی ملنی آسان نہیں، اس لئے مجبوری کے عالم میں سرخ گوشت کھالینا چاہیے۔
دوسرا فیز ـ :خیال آیا کہ آئسولیشن میں حالت بگڑ گئی تب کیا ہوگا؟ عمر کی گولڈن جوبلی تو ابھی نہیں منائی، مگر زیادہ فاصلہ نہیں رہا، شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماریاں لاحق ہیں، دل کو بھٹکنے کی اجازت کم ہی دی، کم بخت پر داروغہ جیسی کڑی نظر رکھی، مگر وزن خاصا زیادہ ہونے کی وجہ سے رسک فیکٹرززیادہ ہیں۔ تین چار برسوں سے سیزن بدلنے پر شدید قسم کی ماحولیاتی الرجی ہوجاتی ہے، جس میں سانس کا مسئلہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ یہ خیال آیا کہ خدا نہ کرے سانس کا مسئلہ ہوا، آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہسپتالوں میں کون بھاگ دوڑ کرے گا؟ میرے جیسے لوگ جو لاہور میں اکیلے ہی مقیم ہیں اور خاندان کئی سو میل دور ہے، انہیں بحرانی لمحات میں افرادی قوت کی کمی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ایسے میں پھر وہی یاد آیا جو حقیقی سہارا ہے اور جس کے بغیر ہم رہ نہیں سکتے۔ اپنے رب سے دعا کی کہ عزت اور بھرم دونوں ہی تیرے ہاتھ میں ہیں، تو ہی سرخرو رکھ۔ تسلی ہوگئی۔
تیسرا فیز: مدافعت، بیماری سے لڑائی سے آگے بڑھ کر انجام کے بارے میں سوچنے کا آیا۔ اچانک خیال آیا کہ اگر مجھے کچھ ہوجائے تو گھر والوں کا کیا بنے گا۔ دل ہی دل میں ویسے" خدانخواستہ"کہہ دیا تھا، اپنے مرنے کی بات تصور میں بھی اچھی نہیں لگی۔ بے اختیار وہ کالم یاد آیا جو دو دن پہلے پڑھااور بے اختیار مسکرانے لگا۔ خوشحال صحافی اور لوئر مڈل کلاس صحافیوں کے مابین فرق کا درست ادراک ہوا۔ اُس تحریر میں سب کچھ تھا، مگر پیچھے والوں کے لئے انہونی کا خوف نہیں تھا۔ اِدھر ہمیں پہلا خیال ہی یہ آیا کہ پورا گھر جس آکسیجن پائپ سے سانس لیتا ہے، وہ میری تنخواہ ہے، جیسے ہی یہ بند ہوا، سب کے لئے شدید مشکل پیدا ہوجائے گی۔ تصور میں بیوی کو مکان کے کرایہ، بچوں کی فیسوں، دودھ والے کے بل، یوٹیلیٹی بلز اور گروسری اخراجات کی فہرستیں ہاتھ میں بے بسی سے تھامے دیکھا۔ اس لائف انشورنس کا خیال آیا، پچھلے سال جس کے واجبات ادا نہ کرنے پر وہ ادھوری رہ گئی۔ پریس کلب کی انشورنس تھی تو وہ بھی سنا ہے انتظامیہ کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ سوچ بچار کے بعد آخری نتیجہ یہی نکلا کہ یہ کام بھی رب کے سپرد ہی کرنا پڑے گا۔ ہمیں پال رہا ہے تو بیوی بچے بھی پل جائیں گے۔
چوتھا فیز: جب تصور میں خود کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ لیا تب ایک عجیب سا معاملہ ہوا۔ نتیجہ تو ظاہر ہے ابھی نہیں آیا تھا، معمولات زندگی پہلے کی طرح ہی چل رہے تھے۔ اچانک سے کئی کاموں میں دلچسپی ختم ہوگئی بلکہ وہ بے مقصد، لایعنی لگنے لگے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ڈائجسٹ میں میرا بڑا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اس میں کچھ اضافے کر کے ایک مختصر سوانح حیات بنا دوں گا۔ اچانک ہی یہ آئیڈیا ڈراپ کر دیا۔ اس بات میں کوئی کشش اور دلچسپی ہی نہیں رہی کہ جانے کے بعد کوئی میرے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ یہ خیال البتہ آیا کہ ان چند دنوں میں سہی، کچھ ایسا لکھا جائے، مثبت، زندگی بدل دینے والا، جو بعد میں صدقہ جاریہ بن سکے۔ اپنی زندگی کے سبق وغیرہ۔ اپنی دونوں کتابوں زنگار، زنگارنامہ کا سوچ کر کچھ طمانیت محسوس ہوئی، جن میں اپنی تمام مثبت، موٹیویشنل تحریریں اکٹھی کر دیں۔ ٹیسٹ سے پہلے ایک ناول کو پڑھنا شروع کیا تھا، اس میں کرداروں کی قرآن سے محبت اور قرآن فہمی پر رشک آیا تھا۔ ان تین دنوں میں شدت سے احساس ہوا کہ زندگی کے اتنے روز وشب ہزاروں، لاکھوں صفحات پڑھنے میں گنوا دی، مگر جو کتاب سب سے زیادہ پڑھنی چاہیے تھی، وہ نظرانداز ہوئی۔ ایک دلچسپ ماجرا یہ ہوا کہ رزق کے لئے اللہ کے ناموں والی تسبیح ہر روز رات کو پڑھا کرتا تھا، اچانک سوچاکہ اب اس کی کیا ضرورت ہے؟ جب ہونا ہی نہیں تو پھر اس کا کیا فائدہ۔ فوری طور پر آیت کریمہ کو ترجیحی فہرست میں شامل کر لیا۔ مغرب میں شائع ہونے والی بعض کتابوں کے مطابق آخری لمحات میں بیشتر مریض اس پر پچھتاتے ہیں کہ اپنے پیاروں کے ساتھ وقت نہیں گزارا، دوستوں، رشتے داروں سے دور رہے، سب سے بڑھ کر ہر ایک کی کوئی نہ کوئی خواہشات کی فہرست ہوتی ہے جسے پورا کرنا چاہتے۔ کسی خاص مقام پر جانا، کوئی تفریح، کھیل وغیرہ۔ ہم مشرقی لوگ شائد مختلف ہیں۔ ایسا کوئی تصور نہیں آیا۔ بس یہی خیال دامن گیر رہا کہ وقت آ گیا تو چلے جائیں گے، مگر نامہ اعمال خالی ہے، ایسا کچھ ہمراہ نہیں جو کفایت کر سکے۔ یہ احساس اس قدر شدید تھا کہ زندہ رہنے کی بھرپور خواہش پیدا ہونے لگی۔ یہ سوچ کہ بیماری اگر ہوئی تو بھرپور مزاحمت کی جائے تاکہ کچھ مہلت مل سکے۔ کچھ ایسا عمل جو رب کی خوشنودی حاصل کرسکے، جو روزِ آخرت سرخرو کر دے۔ ان تین دنوں میں یہ خیال بارہا آیا کہ وہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں جنہیں اپنے خالق کا علم نہیں، جو پالن ہار کو نہیں جانتے، اسے نہیں مانتے اورزندگی کا یہ کٹھن سفر انسانی دانش کے بل بوتے پر طے کرنا چاہتے ہیں۔ حضورﷺ کے امتی ہونے پر خوشی، طمانیت کا احساس ہوا۔ ہم گناہگار سہی، سست اور نالائق سہی، مگر رب کی رحمت کا سہارا نہ ہو، اس کی سرپرستی کا احساس نہ ہو تو ایک لمحہ بھی نہ گزار پائیں۔ تمام ان دیکھے خوف، آنے والے لمحات کی فکر، اپنے پیچھے والوں کی چِنتا? یہ سب تحلیل ہوجاتی ہے، جیسے ہی رب کی رحمت، شفقت اور محبت کا تصور کیا جائے۔ ان لمحات کا آخری خیال یہی تھا کہ کاش جو کیفیت، جو حالت ٹیسٹ نتیجے کی آگہی سے پہلے ہے، وہ بعد میں بھی رہ سکے۔
کاش ایسا ہوجائے۔