چند ہفتے قبل بھارت کے ایک مقبول نوجوان اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کے خودکشی کرنے کی خبر آئی۔ جس کسی نے وہ خبر سنی، حیران ہوا۔ اس لئے بھی کہ سوشانت سنگھ خاصا مشہور اداکار تھا، اس کی کئی فلمیں ہٹ ہوئیں اور وہ نوجوان نسل میں مقبول تھا۔ ایک بظاہر کامیاب اور کروڑوں روپے سالانہ کمانے والا شخص اچانک زندگی کیوں ختم کر لے گا، یہ خیال ہر ایک کے ذہن میں پیدا ہوا۔ بھارت میں اس واقعے کے بعد دو طرح کے طوفان اٹھے۔ سوشانت کے مرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کو تین چار بڑے فلم ساز اداروں نے اپنی فلموں سے کٹ کر دیا تھا، اس کا اسے رنج پہنچا۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم چلی کہ بالی وڈ میں اقربا پروری کی حوصلہ شکنی کی جائے اور جو ادارے سٹارکڈز کو کاسٹ کرتے ہیں، ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ کرن جوہر، ادیتہ چوپڑا، سلمان خان، عالیہ بھٹ، شردھا کپور، سوناکشی شرما، سونم کپور وغیرہ کے خلاف خاصا کچھ لکھا گیا کہ یہ لوگ نئے آنے والوں کا راستہ روکتے ہیں، اپنے بھائی، بھانجوں، بھتیجوں کو کاسٹ کراتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کنگنا رناوت اور دو چار دیگر لوگوں نے کھل کر کرن جوہر وغیرہ پر اقربا پروری کے الزامات لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سفاک رویوں کی وجہ ہی سے سوشانت اور اس جیسے آئوٹ سائیڈرز مایوس ہو کر اپنی زندگی ختم کر بیٹھتے ہیں۔
سوشانت کی موت کے حوالے سے بھی شور اٹھا۔ بعض لوگ عدالت میں چلے گئے کہ موت کی تحقیق کرائی جائے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ خودکشی کے بجائے قتل کیس ہے۔ بھارتی یو ٹیوبرز خیر سے ہماری طرح ہیں۔ پاکستانی یوٹیوب پر دنیا جہان کی فضول اور جھوٹی خبروں پر ویڈیوز بنتی رہتی ہیں، عام آدمی ان پربلا سوچے سمجھے یقین لے آتا ہے۔ بھارت میں یہ کام ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ وہاں بڑے یوٹیوبرز بھی سینکڑوں، ہزاروں میں ہیں جن کے کئی ملین سبسکرائبرز بن چکے ہیں۔ اس واقعے پر بھی بہت سی ویڈیوز بنیں جن میں مختلف من گھڑت تھیوریز کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوئی کہ سوشانت نے خودکشی نہیں کی، بلکہ اسے قتل کیا گیا۔
یہ سب کچھ غلط اور جھوٹ تھا۔ سوشانت سنگھ نے جب خود کشی کی، وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے فلیٹ پر دو ملازمین کے علاوہ اس کے تین چار دوست موجود تھے۔ پولیس نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ آنجہانی اداکار ڈپریشن کے دیرینہ مریض تھے اور انہیں بائی پولر (Bipolar)ڈس آرڈر بھی رہا۔ ممبئی کے ایک ماہر نفسیات سے علاج کراتے رہے، موت سے کچھ عرصہ قبل شائدادویات لینا چھوڑ دی تھیں۔ ڈپریشن بڑھ گیا اور خودکشی تک نوبت چلی گئی۔ سوشانت کی موت کے بعد ڈپریشن کے مرضی کی تباہ کاری نمایاں ہوئی۔ اس سے قبل بھارت ہی کی ایک مشہور اور مقبول اداکارہ دیپیکا پدوکون کھل کر اعتراف کر چکی ہیں کہ وہ ماضی میں ڈپریشن کا شکار رہیں اور وہ دن ان کے لئے خاصے تکلیف دہ تھے۔ اگلے روز نیٹ پر کچھ سرچ کرتے ہوئے ایک رپورٹ پڑھی جس میں دنیا کے کئی بہت مشہورلوگوں کے نام بتائے گئے جو زندگی کے کسی مرحلے پر ڈپریشن کاشکار ہوئے۔ ان میں کئی عالمی ریکارڈ بنانے اور متعدد اولمپک گولڈ میڈل لینے والے آسٹریلوی پیراک مائیکل فلپس کا نام بھی تھا۔ فلپس نے بتایا کہ مجھے ڈپریشن کا مسئلہ کئی برسوں سے ہے، مگر اس ڈر کے مارے کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ لوگ مذاق اڑائیں گے اور پاگل سمجھیں گے۔ فلپس نے رپورٹر سے جملہ کہا، " اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ہر وقت آدمی ٹھیک نہیں رہ سکتا اورڈپریشن ایک نارمل بیماری ہے، اس کے بارے میں بتانا چاہیے۔"
جن دنوں ہاسٹل میں مقیم تھا، ان دنوں قریبی کمرے میں ایک ہائوس جاب کرنے والا لڑکا ڈپریشن کا مریض تھا۔ میں ڈاکٹرز ہاسٹل میں رہتا تھا، اسی لئے طلبہ اپنے ساتھی کے مسئلے کوکچھ نہ کچھ سمجھ سکے تھے۔ اس کا مذاق تو نہ اڑایا جاتا، مگر ڈپریشن کی حقیقی صورتحال کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ دو چار بار ہم اسے کمپنی دینے گئے، جیسا کہ عام معمول ہے ہر کوئی اسے مشورہ دیتا کہ یار تم ٹینشن نہ لیا کرو، ریلیکس رہو، کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ وہ بے چارگی سے جواب دیتا، میرے بس میں نہیں۔ اپنی طرف سے خوش رہنے، چِل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں، مگر بات بنتی نہیں۔ ایک دن اس نے بتایا کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں کسی اندھے کنوئیں میں پڑا ہوں اور کوئی نکالنے والا نہیں۔ اس پر ہم لوگوں نے بڑے جوش وخروش سے اس سے ہمدردی جتائی اور کہا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، اکیلا نہ سوچا کرو، وغیرہ۔ اس کی آنکھوں میں موجود اداسی کم نہ ہوسکی۔ معلوم نہیں آج کل وہ کہاں ہوگا، علاج کرا رہا تھا، اللہ کرے خیر یت سے ہو۔ ہمارے ہاں ڈپریشن کے حوالے سے بہت کم آگہی موجود ہے، لوگ اسے مرض سمجھتے ہی نہیں، کچھ پاگل پن سے ملا دیتے ہیں۔ ڈپریشن پاگل پن نہیں، یہ ایک ذہنی بیماری ہے، جیسے شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ جسمانی بیماریاں ہیں۔ ڈپریشن کی علامات اداسی سے ملتی جلتی ہیں، اس لئے لوگ دونوں میں فرق نہیں کر پاتے۔ ڈپریشن کی علامات میں خراب موڈ، کھانے پینے میں اشتہا کی کمی، بہت زیادہ سونا یا بہت کم سونا، جلد ہائپر ہوجانا، شدید تھکن اور سست پڑ جانا، وزن بغیر کوشش کے کم ہوجانا، انرجی کی کمی، وہ چیزیں بھی نہ کرنا جو پہلے خوشی سے کی جاتی تھیں، خود کا ناکارہ اور بوجھ سمجھنا، چیزوں پر فوکس نہ کرنا، فیصلہ کرنے میں مشکل، موت کی خواہش، خود کشی کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اداسی یا صدمے کی کیفیات سے ملتی ہیں۔ یاد رہے کہ ہم سب زندگی کے کسی نے کسی مرحلے پر دکھ، رنج یا صدمے کی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ کسی پیارے کی موت، ملازمت چلی جانا، کیرئر ختم ہوجانا، کسی وجہ سے بدنامی ہونا، محبت کی ناکامی یا شادی ٹوٹ جانا، حادثے میں جزوی معذوری وغیرہ۔ ایسے میں کچھ عرصہ آدمی اداسی اور پریشانی کی کیفیت میں گزارتا ہے، جانے والی کی یادیں غمگیں کر دیتی ہیں، کھانے کا جی نہیں چاہتا، کہیں آنا جانا نہیں ہو پاتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نارمل کیفیت ہے، کچھ دنوں میں آدمی بتدریج اس کیفیت سے باہر آ جاتا ہے اور اداسی کی یہ کیفیت مسلسل نہیں ہوتی، کسی وقت آدمی نارمل ہوجاتا ہے پھر جب یاد آئے تو اداسی غالب ہوجاتی ہے۔
ڈپریشن میں اس کے برعکس فیز طویل ہوتا ہے، مریض دو تین ہفتے مسلسل اسی کیفیت میں رہتا ہے، دوسرا اس میں اپنے آپ کو بوجھ اور ناکارہ سمجھنے کا خیال طاقت پکڑ لیتا ہے۔ خود ترسی کے جذبات بڑھ جانے سے اپنی زندگی اچانک ختم کردینے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ ڈپریشن ہلکا، درمیانہ یا شدید ہوسکتا ہے۔ خواتین میں یہ مردوں سے دو گنا ہوتا ہے، ماہرین کے مطابق ایک تہائی خواتین زندگی میں کبھی نہ کبھی ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین میں ڈپریشن کی ایک مختلف قسم بھی موجود ہے، بعض عورتیں بچہ پیدا کرنے کے بعد ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتی ہیں، چند ایک کیسز میں باپ بننے والے مرد کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے، جس کا علاج موجود ہے۔ نوے فیصد کیسز میں ڈپریشن ٹھیک ہوجاتا ہے۔ زیادہ سنگین کیسز میں بھی علاج سے کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آتی ہے۔ ڈپریشن کے اکثر مریضوں کو پروفیشنل ہیلپ (سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ کی مدد) درکار ہوتی ہے، اس لئے بغیر شرمائے، بغیر ہچکچائے متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ یہ یاد رہے کہ ڈپریشن کے کسی مریض کو کسی صدمے کا سامنا کرنا پڑے تو صورتحال زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس لئے علاج کر ا کر ڈپریشن کے اندھے کنوئیں سے جلد باہر آئیں تاکہ زندگی کی کٹھنائیوں کا مضبوطی سے کھڑے ہو کر مقابلہ کر سکیں۔