ہمارے بعض بلوچ دوستوں نے یہ سوال اٹھایا کہ پنجاب کے لکھنے والے، سوچنے والے بلوچ قوم پرستوں کی آواز میں آواز کیوں نہیں ملاتے، وہاں کی مقامی تحریکوں اور ایشوز سے فاصلہ رکھتے ہیں اور ظلم کی کھل کر مذمت نہیں کرتے۔ اگلے روز کراچی سٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھی تو بعض دوستوں نے پھر شکوہ کیا کہ ایسے کسی واقعے کے بعد آپ لوگ جوش وخروش سے لکھتے ہیں، مگر بلوچستان میں معصوم بچی برمش کے ساتھ ہونے والے ظلم کو اپنی تحریروں کا عنوان نہیں بنایا۔
یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے، میرے سمیت بہت سے لکھنے والے، ٹی وی پر بات کرنے والے احباب نے بلوچستان میں ڈکیت گینگز کے خلاف ابھرنے والی سول سوسائٹی اورسیاسی ایکٹوسٹوں کی تحریک کو نظرانداز کیا۔ ضلع کیچ کے ایک واقعہ میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں یہ معصوم بچی برمش زخمی ہوئی، جبکہ اس کی والدہ قتل ہوگئیں۔ اس واقعے نے ایک طرح سے بلوچستان کی سول سوسائٹی، سوچنے سمجھنے والے طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، سوشل میڈیا نے اسے مہمیز لگائی، بہت سی تحریریں لکھی گئیں، ویڈیوز بنائی گئیں، بلوچستان کے متعدد شہروں میں اس پر احتجاجی جلوس نکلے۔ کوئٹہ میں طالبات کے ایک جلوس کو پولیس اور انتظامیہ نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی، جس پر احتجاج مزید شدید ہوا۔ اس پر نوشکی، گوادر، پسنی، تربت، بارکھان سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے، کراچی اور ڈی جی خان میں بھی مظاہرہ کیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کے سامنے بھی طلبہ نے مظاہرہ اور دھرنا دیا۔ صوبائی حکومت نے لیپا پوتی کے انداز میں ایک آدھ پولیس افسر کی معطلی کی مگر احتجاج ختم نہیں ہوا۔ بدقسمتی سے ان احتجاجی مظاہروں کو مین سٹریم میڈیا میں بھرپور کوریج نہیں مل سکی۔
برمش واقعہ نے بلوچستان میں ایک احتجاجی لہر پیدا کی ہے، اس کے مضمرات اور اسباب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی علاقے میں ڈاکوئوں کے کسی گروہ کے ہاتھوں شہریوں کا نشانہ بننا خبرتو ہے، مگر جب پورے صوبے میں اس پر احتجاج ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یہ کرائم صفحے کی ایک خبر نہیں بلکہ اس کی گہرائی میں خاصا کچھ موجود ہے۔ دراصل ڈاکوئوں کے ان گروہوں کو مقامی سطح پر طاقتور افراد کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے طاقتور افراد جن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ شدت پسند بلوچ عسکریت پسندوں کو کائونٹر کرنے کے لئے مقامی سطح پر بروئے کار لائے گئے اور اسی وجہ سے ان کی کچھ دیگر سرگرمیوں سے اغماض برتا گیا۔ یہ وہ الزام ہے جو بلوچستان میں عوامی سطح پر سامنے آیا، سوشل میڈیا پر بہت سے نوجوانوں نے دلسوزی سے اسے بیان کیا۔ جوکے پی کے قبائلی علاقوں (سابق فاٹا)میں ٹی ٹی پی کے خلاف مقامی لشکر تیار کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ اس حکمت عملی نے وہاں بھی بیک فائر کیا۔ انہی مقامی لشکروں، گروہوں کے بطن سے وہ تنازعات پھوٹے، جن کا منطقی انجام پی ٹی ایم کی شکل میں سامنے آیا۔ اصولی طور پر مقامی سطح پر عسکریت پسندی کا مقابلہ باقاعدہ سرکاری فورسز کو کرنا چاہیے جو قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں کریں۔ یہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیچ اور دیگر اضلاع میں مشکوک پس منظر رکھنے والے مقامی بااثر شخصیات اور طاقتور گروہوں کا خاتمہ کریں۔ ویسے اگر صوبائی حکومت اتنی اہل اور مستعد ہوتی تو یہ شکایت پیدا ہی کیوں ہوتی؟ اس مسئلے پر اداروں کو توجہ کرنی چاہیے۔ صورتحال کی سنجیدگی اور سنگینی کو سمجھنا چاہیے۔ سانحہ برمش کے حقیقی ملزمان گرفتار کئے جانے چاہئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ضلع کیچ میں یہ ڈاکو گینگز تواتر سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ یہ تاثر ہر قیمت پر دور کرنا چاہیے۔ قانون سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کی جان ومال کی حفاظت کرے۔ عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ بھی کرنا چاہیے، دہشت گردی کا نیٹ ورک بھی لازمی توڑا جائے، مگر یہ سب کرتے ہوئے مقامی آبادی کے دل جیتنے چاہئیں، ان کی بھرپور حمایت اور ساتھ ہی سے دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ اگر عسکریت پسندوں کے قبائلی مخالفین کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کی کارروائیاں کرنے کی کھلی اجازت دی جائے تو اس کے مضمرات بہت گہرے اور سنگین ہوں گے۔ پی ٹی ایم کی طرز کا ایک اور شگوفہ پھر انہی علاقوں سے جنم لے گا اور غلط فہیوں کو مزید ہوا ملے گی۔
میڈیا پر کوریج نہ ملنے کی شکایت صرف بلوچستان کے لوگوں کی نہیں، پنجاب میں سرائیکی وسیب (خطے) کے لوگ بھی یہی شکایت رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں سے جنم لینے والی بڑی خبریں بھی مین سٹریم میڈیا میں چند سکینڈ کی کوریج نہیں پا سکتیں۔ اندرون سندھ کے مکین بھی یہی شکوے کرتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں مالاکنڈ، سوات، چترال وغیرہ کی شائد ہی کوئی خبر بروقت میڈیا میں آ سکے۔ جنوبی اضلاع ڈی آئی خان، ٹانک، کوہاٹ وغیرہ کے کئی سلگتے ہوئے ایشوز لائم لائٹ میں نہیں آ پاتے۔ خود مردان، صوابی، چارسدہ جیسے علاقوں کو یہ شکایات ہیں۔ یہ ایک تلخ بے رحم حقیقت ہے کہ ہمارا میڈیا لاہور، کراچی، اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز کے ایشوز نجانے کون ترتیب دیتا ہے اور پاکستان کے بے شمار علاقوں کی بڑی خبریں بھی ان کے ایجنڈوں میں جگہ نہیں پا سکتیں۔ کئی بڑے اینکرز کے درجنوں بلکہ بیسیوں پروگرام صرف دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کی چپقلش اور نان ایشوز کے گرد گھومتے ہیں۔ حیرت ہے کہ انہیں اپنی آڈینس کا قطعی اندازہ نہیں۔ قومی اخبارات میں پھر بھی ان دور افتادہ علاقوں کی خبریں کچھ نہ کچھ شائع ہوجاتی ہیں۔ اخبارات میں ایک اور ایشو بھی پیدا ہوچکا ہے۔ ریجنل ایڈیشنز کا اجرا مقامی صحافت کے لئے اچھا شگون ہے، اب چھوٹے شہروں، قصبات کی بے شمار خبریں شائع ہوجاتی ہیں، وہاں کے لکھنے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ جگہ مل جاتی ہے۔ یہ مسئلہ البتہ ہے کہ کوئٹہ، پشاور، ملتان وغیرہ کے اخبارات کی بہت سی خبریں انہی ایڈیشنز تک محدود رہتی ہیں۔ بڑی خبریں البتہ دوسرے ایڈیشن لے لیتے ہیں۔ آن لائن اگرچہ یہ سب اخبار دستیاب ہیں اور پڑھے جا سکتے ہیں، مگر لوگ عام طور پر ہارڈ کاپی میں یا آن لائن ایک ہی اخبار پڑھ کر اکتفا کر لیتے ہیں۔ میں خود کراچی اور سندھ کی خبریں جاننے کے لئے بعض اوقات خاص طور سے اخبار کا کراچی ایڈیشن دیکھتا ہوں۔ اسی وجہ سے سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو خاص طور سے رنگین سیاسی ایڈیشن پڑھنے کامشورہ دیتا ہوں کہ اس میں مختلف اہم سٹیشنز کی سیاسی ڈائریاں شائع ہوتی ہیں، انہیں پڑھ کر مقامی سیاسی پیش رفت سے باخبر رہا جا سکتا ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ مین سٹریم میڈیا میں بلوچستان کی خبریں اس لئے شائع یا نشر نہیں ہوتیں کہ یہ پنجاب کا میڈیا ہے اور بلوچستان سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ یہ سوچ غلط ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے الیکٹرانک میڈیا کے بھی کم وبیش یہی مسائل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ نام نہاد ریٹنگ کا سسٹم ہے جس کے تحت کسی بھی چینل کی آڈینس کا اندازہ لگانے کے لئے میٹر صرف تین چار بڑے شہروں میں لگے ہیں، ان میں سے بھی پینتیس سے چالیس فیصد تک میٹر صرف کراچی میں لگے ہیں۔ پاکستان کے دو صوبے سرے سے اس میٹر ریٹنگ سسٹم کا حصہ ہی نہیں، پنجاب میں پورے جنوبی پنجاب اورکراچی کے علاوہ باقی پورے سندھ میں بھی یہ میٹرز نہیں لگے ہوئے۔ یہ فرسودہ اور غلط سسٹم ہے۔ اسے بدلنا چاہیے۔ اس کے لئے سب کو مل کر بات کرنی چاہیے۔ یہ میٹر ریٹنگ سسٹم بدلنا چاہیے اور اس کے ساتھ مین سٹریم میڈیا میں ملک کے محروم، پسماندہ علاقوں کی خبروں کے لئے خصوصی گنجائش ہونی چاہیے۔ یہ کسی بلوچ کا ایشو نہیں، بلکہ تمام قومیتوں کے باشعور، سمجھدار لوگوں کو مل کر اس پر بات کرنی چاہیے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اکثر نان ایشوز پر گھنٹوں تقریریں ہوتی ہیں۔ روزانہ لاکھوں روپوں میں قوم کوپڑنے والے ان اجلاسوں میں ایسے اہم ایشو پر بحث کیوں نہیں ہوتی؟ حکومتی اراکین کے علاوہ اپوزیشن کے خواجہ آصف جیسے شعلہ بیان مقررین کو اپنی توانائی مخالفوں کو طعنے دینے کے بجائے سنجیدہ، تعمیری بحثوں میں صرف کرنی چاہیے۔ یہ سوال بلوچ اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز سے بھی پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے برمش ایشو کوبھرپور طریقے سے ان قومی فورمز پر کیوں نہیں اٹھایا؟ وہ حالات سے زیادہ باخبر ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے تو اس ایشو کی قومی سطح پر تفہیم ہوسکتی تھی۔ یہ تحریر تو اپنے حصے کا قرض ادا کرنے کی ایک ٹوٹی پھوٹی کوشش ہی ہے، اگرچہ حق ادا نہیں ہوسکا۔
بعض قارئین نے میرے فیس بک پیج کے بارے میں استفسار کیا تھا، اس لنک کے ذریعے وہ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ https://www.facebook.com/Aamir.Hashim.Khakwani/