آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ خاکسار کا تعلق چونکہ صحافت کی ایک شاخ میگزین جرنلزم سے ہے، صحافتی زندگی کے چوبیس میں سے اکیس سال میگزینوں کو سنوارتے، سجاتے گزرے۔ پچھلے اٹھارہ برس مسلسل مختلف اخبارات کے کلر ایڈیشن اور سنڈے میگزین کی ذمہ داری میں گزرے۔ میگزین والوں کو خاص دنوں کی مناسبت سے خصوصی ایڈیشن تیار کرنے ہوتے ہیں۔ قومی اہمیت کے دن جیسے چودہ اگست، تیئس مارچ، یوم اقبال، یوم قائداعظم، چھ ستمبر وغیرہ ہوں یا خاص مذہبی دن جیسے عیدین، بارہ ربیع الاول، شب برات، شب معراج، عاشورہ محرم، خلفا راشدین کی وفات پر خاص ایڈیشن تیار ہوتے ہیں۔ یکم مئی، پانچ فروری یوم کشمیر بھی ان میں شامل ہے۔ ہم لوگ خاصے عرصے سے ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے سپیشل ایڈیشن تیار کرتے آئے ہیں۔ مجھے کبھی یاد نہیں کہ اس بارے میں کبھی کوئی تنازع یا مسئلہ کھڑا ہوا ہو۔
عام طور پر ہر اخبار کے میگزین سیکشن میں ایک دو خواتین کام کرتی ہیں۔ خواتین کا صفحہ ان کے سپرد ہوتا ہے کہ وہ زیادہ اچھے طریقے سے عورتوں سے وابستہ مسائل کو سمجھ اور لکھ سکتی ہیں۔ ہر اخبار آٹھ مارچ کو خصوصی ایڈیشن شائع کرتا ہے، مسابقت کے پیش نظر یہ بھی کوشش کی جاتی کہ دوسروں سے بہتر انداز میں مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ کبھی مختلف شعبوں کا سروے، کسی خاص زاویے سے تیار کردہ فیچر، مختلف رپورٹوں کے حوالے، اعداد وشمار وغیرہ۔ ویمن ڈے ایڈیشن اتنی پابندی سے دیا جاتا ہے کہ اگر اخبار کی اپنی ترتیب کے حساب سے خواتین ایڈیشن کسی اور دن بھی آتا ہو، تب بھی آٹھ مارچ والے دن الگ سے خصوصی ایڈیشن بنے گا۔ اس باربھی ہمارے نائنٹی ٹو نیوز میگزین کی فیچررائٹر اور خواتین کے صفحے کی انچارج حناانور نے مجھ سے پوچھا کہ ہم پیر کے دن خواتین ایڈیشن دیتے ہیں، مگر ویمن ڈے سنڈے کو آ رہا ہے تو کیا کیا جائے؟ میں نے انہیں کہا کہ اتوار کو ویمن ڈے پر خصوصی ایڈیشن تیار کیا جائے، جبکہ پیر کو خواتین ایڈیشن اپنے معمول کے مطابق شائع ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ خاصے طویل عرصے سے آٹھ مارچ کو مختلف خواتین تنظیموں کی جانب سے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، مختلف حوالوں سے سمینار، آگہی واک، کبھی کسی خاص حوالے سے احتجاجی جلسہ وغیرہ۔ میڈیا ہمیشہ اس کی اچھی کوریج کرتا رہا۔ نیوز چینلز کے آنے سے ویڈیو کوریج بھی شامل ہوگئی۔ یاد رہے کہ بیشتر اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ذمہ داران کی اکثریت بلکہ بہت بڑی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے۔ خواتین کے مسائل، تحفظات، ان کے مطالبات وغیرہ کو پروفیشنل انداز سے کوریج ملتی رہی۔ کبھی کہیں یہ بات نہیں سنی کہ یہ عورتیں ایسے خواہ مخواہ جلسے، سمینار کرتی رہتی ہیں، ان کی کوریج نہیں ہونی چاہیے۔ ایسی کوئی بات اپنے پورے صحافتی کیرئر میں کسی سے نہیں سنی، حالانکہ کسی ایک جگہ بھی کوئی خاتون میری سینئر نہیں رہی۔ ہر جگہ ایڈیٹرز، سینئر ایڈیٹرز، گروپ ایڈیٹر صاحبان مردہیں۔ ممکن ہے کوئی میل شاونزم کا شکار ہو، اپنی ذاتی زندگی میں ممکن ہے کسی کے این جی اوز اور لبرل خواتین کے بارے میں منفی رائے ہو، اس کے باوجود بطور پروفیشنل صحافی کسی نے کبھی کوئی بات نہیں کی، ان کا مذاق نہیں اڑایا۔
سوال یہ ہے کہ ویمن ڈے پر آخر پچھلے دوتین برسوں سے تنازعات کیوں شروع ہوئے ہیں؟ پچھلے سال آٹھ مارچ کو ہونے والے خواتین مارچ نے تو ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ اُس مارچ میں ایسے عجیب وغریب، افسوسناک اور قابل اعتراض نعروں والے پلے کارڈ، بینر وغیرہ استعمال ہوئے، جس پر ملک بھر میں شدید ردعمل ہوا۔ ہر حلقے نے ان نعروں اور بینرز کی مذمت کی، خواتین کی بہت بڑی تعداد نے اس پر سخت تنقیدکی۔ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر بے شمار لڑکیوں نے خواتین مارچ کے خلاف مذمتی آرٹیکل لکھے۔ ان میں صرف مذہبی سوچ رکھنے والی خواتین شامل نہیں تھیں، بلکہ پڑھی لکھی ماڈریٹ، روشن خیال اور اچھی خاصی ماڈرن خواتین نے بھی ان فضول نعروں کو مسترد کر دیا۔ ان کی تحریروں کا نچوڑ یہی تھا، " خواتین مارچ میں جو کچھ ہوا، وہ ایک خاص این جی او زایجنڈے اور مائنڈ سیٹ کو ظاہر کر رہا ہے اور پاکستانی عورت کے حقیقی مسائل کچھ اور ہیں۔ میرا جسم میری مرضی، میں جو چاہوں کپڑے پہنوں، طلاق لے کر خوش، ٹانگیں کھول کر بے ہودگی سے بیٹھنے کی تصویر کے اوپر یہ لکھنا کہ میں اچھے طریقے سے بیٹھ گئی ہوں ? یہ سب وہ باتیں ہیں جو پاکستانی خواتین کے ایشوز ہیں نہ ہی ان کے مسائل اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہے۔"
اب اس بار خواتین مارچ ہونے سے پہلے ہی تنازعات شروع ہوگئے ہیں۔ دراصل لبرل حلقے سے چند ایک پرجوش خواتین نے فرط جذبات سے چند ایک نئے پلے کارڈز پر مبنی سوشل میڈیا پوسٹیں لگا دیں۔ ان کا خیال تھا کہ پچھلی بار جو ہنگامہ ہوا، وہ ہماری کامیابی تھی، اس لئے اس بار ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ اس پر ردعمل آنے لگا۔ اگلے روز ایک ٹاک شو میں ماروی سرمد اور ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمر میں تندوتیز بحث ہوئی، پچھلے دو دنوں سے سوشل میڈیا اسی کے ذکر سے بھرا ہے۔ خلیل الرحمن قمر نرگسیت کے شکار، خبط عظمت میں مبتلا لکھاری ہیں۔ شاعروں میں مبالغہ آمیز فخر کی روایت چلی آرہی ہے، فکشن نگار اس بدعت سے محفوظ تھے۔ ہم نے اشفاق احمد، شوکت صدیقی، منو بھائی، امجد اسلام امجد، انور سجاد، بانو قدسیہ، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ جیسے بہت مقبول، نامور ڈرامہ رائٹرز دیکھے، ان کے ڈرامے بے پناہ مقبول ہوئے، ان کی ادبی حیثیت بھی مسلمہ ہے، کبھی کسی نے تفاخر یا نرگسیت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کون ہے جو اشفاق احمد، شوکت صدیقی، بانو آپا، منوبھائی، امجد اسلام امجد وغیرہ کے قلم پر انگلی اٹھاسکے؟ خلیل الرحمن قمر غریب ادب کے میدان میں ٹاپ ہنڈرڈ لکھاریوں میں بھی نہیں آتے۔ چند ایک ڈرامے ہٹ ہوگئے، ان میں بھی کمزور پلاٹ، روایتی کہانی، زور صرف مکالموں پر۔ نرگسیت پسندی مگر ہر ایک کو دیوتا بنا دیتی ہے۔ یہی خلیل قمر کے ساتھ ہوا۔ ماروی سرمد بھی متنازع خاتون ہیں، ہنگاموں کی شائق، حد سے زیادہ بولڈ، غیر شائستگی کی حد کو چھونے والی گفتگومرغوب ہے۔ خرابی کی ایک جڑ میڈیا کا چلن بھی ہے، جس میں ہر ہنگامے باز، جھگڑالو اور بدتہذیب زیادہ اہمیت پاتا ہے۔ بیشتر چینلز والے سمجھتے ہیں کہ جس قدر جھگڑے ہوں گے، گالیاں بکی جائیں گی، ایک دوسرے پر حملے ہوں گے، اتنی ہی ریٹنگ زیادہ ملے گی۔ ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر جیسے لوگوں کو ٹاک شوز میں بار بار صرف اسی لئے بلایا جاتا ہے۔ خیر اس ہنگامہ خیزی پر بہت کچھ لکھا گیا۔ قصور ماروی سرمد کا تھا، وہ ہمیشہ اپنی بات کہنے کے بعد دوسرے کو بولنے نہیں دیتیں۔ ادھر خلیل الرحمن قمر خود کو دیوتا سے کم نہیں سمجھتے، وہ ایسے برہم ہوئے کہ خاتون کا احساس اور ٹی وی پر ہونے کا ادراک کئے بغیر ماروی سرمد پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی، نہایت گھٹیا ذاتی حملے کئے اور اپنے اندر کا زہر، گھٹیا پن پوری طرح اگل ڈالا۔ اس معرکے میں زیادتی خلیل الرحمن قمر کی تھی، انہوں نے تمام حدیں عبور کر لیں۔
اس ہنگامے سے سب کی توجہ اس جانب چلی گئی، پروگرام کے نکات پیچھے رہ گئے۔ ماروی سرمد نے لڑائی سے پہلے اپنی گفتگو میں ایک اہم بات کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ہماری نئی نسل کی لڑکیوں نے پچھلی بار عورت مارچ میں مخالفوں کو ایسی چٹکی کاٹی، جس سے اتنا ردعمل ہوا۔ بات ان کی درست ہے۔ جن لڑکیوں کی وہ ستائش کر رہی تھیں، ان کی کاٹی چٹکی واقعی تکلیف دہ تھی۔ انہوں نے مگر کسی مرد یا اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے کو چٹکی نہیں کاٹی بلکہ ہمارے سماج کے بنیادی فیبرک کو ادھیڑنے کی کوشش کی، انہوں نے پاکستانی سماج کے پہلو میں قینچی گھونپ ڈالی۔ دانستہ طور پر وہ نعرے لگائے جو مذہب اور سماج کی تمام روایات کے خلاف ہیں۔ ردعمل ہونا فطری تھا۔ یہ دراصل ہمارے معاشرے کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ تمام تر اخلاقی کمزوریوں کے باوجود ابھی قوم کے اندر حیا باقی ہے۔ اپنے دین کے لئے حمیت، احساس، اپنے نبی سرکار مدینہ ﷺ کے احکامات کا پاس باقی ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے سال خواتین مارچ کو دانستہ متنازع بنایا گیا۔ ایسے نعرے تخلیق ہوئے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کا مذاق اڑائیں۔ ایک خاص مغرب زدہ ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا۔ یہ مسلم پاکستانی عورت کے بنیادی تصورات کو مسخ کرنے کی کوشش تھی، بلکہ پاکستان میں رہنے والی غیر مسلم خواتین خواہ وہ عیسائی، ہندو، سکھ یا قادیانی ہوں، ان سب کی بھی توہین اور تذلیل کی کوشش تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ ویمن ڈے پر ہمیشہ سے خواتین کی سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں، کبھی ان پر اعتراض نہیں ہوا۔ مردوں کو خواتین کے مسائل پر مبنی نعروں اور ان کے حل کے مطالبات سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم میں سے بے شمار مرد اس کی حمایت کرتے ہیں۔ خواتین کے حق میں بہت سے قانون بن چکے ہیں، وہ سب مردوں کی اکثریت پر مشتمل اسمبلیوں نے منظور کئے۔ پچھلے سال خواتین مارچ پرجو شدید ردعمل آیا، اس کی بالکل ہی الگ وجوہات ہیں۔ اگر اس بار بھی وہی کچھ ہوا تو پھر پہلے جیسامنفی، تنقیدی ردعمل آئے گا۔ اسے ہرگزمردانہ عصبیت یا میل شاونزم نہیں سمجھنا چاہیے۔